‘منع کرنے کے باوجود میسج کرنے کی سزا تین سال قید ہے’


اسلام آباد: سائبر کرائم کے وکیل ذیشان ریاض نے کہا ہے کہ ہراسمنٹ جب سائبر اسپیس میں آ جاتی ہے تو اور بھی زیادہ خطرناک بن جاتی ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام “صبح سے آگے” میں میزبان شفا یوسفزئی اور اویس منگل والا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سائبر ہراسمنٹ دراصل دیکھنے والوں کے لیے ایک انٹرٹینمنٹ ہوتی ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیس بک پر کسی کو ضرورت کے بغیر فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا قانونی طور پر ہراسمنٹ کے زمرے میں نہیں آتا لیکن اخلاقی طور پر غلط ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کسی سے بات کے دوران اگر سامنے والا میسج کرنے سے منع کر دے اور پھربھی میسج کیا جائے تو یہ ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے جس کی سزا تین سال قید ہے۔

فیک (جعلی) پروفائلز کےحوالے سے ذیشان ریاض کا کہنا تھا کہ اب فیک پروفائلز بنانا لوگوں کا مشغلہ بن چکا ہے لیکن اس پر کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ کسی کی تصویر استعمال کرنا یا فیک آکاؤنٹ بنانے پر بھی تین سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان ٹیلی کمونکیشن (پی ٹی اے) کی جانب سے سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے شکایات درج کرانے کے لیے سائبر ویجیلنس ڈویژن ( سی وی ڈی) کا شعبہ قائم کر دیا ہے۔ تمام افراد ایسے جعلی آکاؤنٹس یا سائبر ہراسمنٹ کے حوالے سے اپنی شکایات http://nr3c.gov.pk/ پر درج کرا سکتے ہیں۔

ذیشان ریاض کا کہنا تھا کہ سب سے خطرناک ہراسمنٹ یہ ہے کوئی آپ کی تصویر یا ویڈیو کو فوٹوشاپ کر کے وائرل کر دے۔ اس کیس میں آپ کو یہ پتا ہی نہیں ہوتا کہ ایسا کرنے والا کون ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کی ہراسمنٹ کی وجہ سے طلاق کے بھی کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔


متعلقہ خبریں