طالبان عوام کا ساتھ دیں یا استعمال ہوں، اشرف غنی کا انتباہ


کابل: افغانستان کے صدر اشرف غنی نے افغان طالبان کو امن مذاکرات میں شرکت کی سنجیدہ پیشکش کی ہے۔ سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میں طالبان سے کہتا ہوں کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے آگے آئیں اور امن مذاکرات میں براہ راست شرکت کریں‘‘۔

افغان نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ کے مطابق افغان صدر نے اپنے خطاب میں طالبان قیادت پر زور دیا کہ ’’طالبان کو چاہیے کہ وہ حکومتی پیشکش قبول کریں‘‘۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی کا قوم سے خطاب ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اورامریکہ کے درمیان ہونے والے چھ روزہ مذاکرات کے اختتام پر دونوں فریقین کے درمیان اہم نکات پر تقریباً اتفاق رائے ہوگیا ہے اور معاہدے کے ڈرافٹ کو بھی حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق طالبان اورامریکہ کے درمیان اہم امور پر اتفاق رائے ہونے ک2ے بعد صرف جزیات طے ہونا باقی ہیں۔

عالمی خبررساں ادارے نے گزشتہ روز قطری وزارت خارجہ کے ذمہ دار ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی دی تھی کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا آئندہ دور 25 جنوری کو دوحہ میں ہو گا۔

دلچسپ امر ہے کہ افغان حکام نے قطر مذاکرات میں شریک نہ کیے جانے پر خبردار کیا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے کسی بھی معاہدے کوکابل کی توثیق لازمی درکار ہوگی۔

طالبان قیادت عرصے سے موجودہ افغان صدر اور ان کی حکومت کو ’کٹھ پتلی‘ قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کرتے آئے ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی اس سے قبل بھی کئی مرتبہ طالبان قیادت کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش کرتے آئے ہیں لیکن افغان طالبان نے ہمیشہ ان سے یا ان کے نمائندوں سے مذاکرات کو وقت کا زیاں ہی قرار دیا ہے۔

افغان طالبان رہنماؤں نے اسی مؤقف کو اپناتے ہوئے گزشتہ دنوں کئی مرتبہ امریکہ سے ہونے والے مذاکرات تمام تر تیاریاں مکمل ہونے کے باجود کرنے سے صرف اس لیے انکار کیا کہ وہ ایسے کسی بھی مذاکراتی عمل کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں تھے جس میں اشرف غنی حکومت کا کوئی بھی نمائندہ شریک ہو۔

مغربی ملک کی ایک اہم خبررساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ طالبان کے پاس دو ہی راستے ہیں، اول وہ افغان عوام کا ساتھ دیں اور دوئم یہ کہ دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوں۔

افغان صدر اشرف غنی کا دعویٰ ہے کہ حکومت سالوں سے جاری جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے اوریہی خواہش اافغان عوام کی بھی ہے۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کی فوج کی مدد کرنا نہیں چاہتا ہے مگر موجودہ صورتحال میں غیر ملکی افواج کی موجودگی ضروری ہے۔

امریکہ کے نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ نے 25 جنوری 2019 کوخبردی تھی کہ افغان صدر اشرف غنی نے ڈیوس کانفرنس میں عام گفتگو کے دوران کہا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے جو بھی معاہدہ ہوگا اس میں ملک کے آئین و قانونی طریقہ کار کے تقاضوں کی حرمت کا خیال رکھنا لازمی ہوگا۔

وی او اے کے مطابق صدر افغانستان کے کلمات کو ان کے دفتر نے جمعہ کے دن باقاعدہ متن کی صورت میں جاری کیا تھا۔

جاری کردہ متن کے مطابق اشرف غنی نے واضح کیا تھا کہ صرف افغان قیادت والا مکالمہ ہی ملک میں غیر ملکی افواج کی موجودگی سے متعلق کسی بات کا تعین کر سکے گا۔


افغانستان کے نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ کے مطابق افغان صدارتی محل سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے متعلق افغان صدر اشرف غنی کو تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔

اعلامیہ کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی نے بتایا ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان امریکی فوج کے انخلا کا کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا ہے۔

افغان سرکاری اعلامیہ کے مطابق زلمے خلیل زاد نے جو تفصیلات بتائی ہیں ان کے مطابق  طالبان امریکہ مذاکرات میں افغانستان کے سیاسی نظام کی تبدیلی پربھی بات نہیں ہوئی ہے۔

افغان صدارتی محل سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ زلمے خلیل زاد کے مطابق مذاکرات میں افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق بات نہیں کی گئی۔

اعلامیہ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ زلمے خلیل زاد نے بتایا ہے کہ مذاکرات میں طالبان رہنماؤں نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا مطالبہ دہرایا لیکن امریکی فوج کے انخلا کا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔


متعلقہ خبریں