سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ


لاہور: پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس (سوشل میڈیا) پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2018 سے دسمبر 2018 کے درمیانی عرصے میں 998 خواتین کو ہراساں کیا گیا۔

ہم نیوز کے مطابق درج بالا اعداد و شمار فیڈرل انوسٹی گیشن ایجسنی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سیل کے جاری کردہ ہیں۔

سائبر کرائم سیل ایف آئی اے کے جاری کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ زاہد بخاری نے ایک قرارداد جمع کرائی ہے جس میں صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ تحفظ حقوق نسواں ایکٹ پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد بنایا جائے۔

عظمیٰ زاہد بخاری کی جانب سے جمع کرائی گئی قرار داد میں پنجاب حکومت سے کہا گیا ہے کہ خواتین کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔

قرار داد میں کہا گیا ہے کہ جنسی طورپر ہراسگی کا شکار ہونے والی خواتین میں زیادہ تعداد طالبات اور ورکرز خواتین کی ہے۔

رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ زاہد بخاری نے جمع کرائی گئی قرار داد میں زور دیا ہے کہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں تحفظ حقوق نسواں کے حوالے سے خصوصی طور پر سیمینار کا انعقاد کیا جائے اورصوبے بھر میں آگاہی مہم چلائی جائے۔

نومبر 2018 میں ماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی شکایات کے لیے پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین اور ایف آئی اے نے ’ہیلپ لائن‘ متعارف کرائی تھی ۔

ہیلپ لائن کا مقصد متاثرہ خواتین کو یہ سہولیات فراہم کرنا تھا کہ وہ  فیس بک، انسٹا گرام، واٹس اپ اور ٹوئٹرسمیت دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کے خلاف باقاعدہ شکایات درج کرا سکتی ہیں۔

ہیلپ لائن کے حوالے سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی درج کرائی جانے والی شکایات پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین کا مؤقف تھا کہ خواتین ہیلپ لائن 1043 پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کی شکایات درج کرا سکتی ہیں۔

متعلقہ قوانین کے مطابق سوشل میڈیا پر ذاتی معلومات تک غیر قانونی رسائی پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا مقرر ہے۔

ہیلپ لائن کے ذریعے تربیت یافتہ خواتین ورکرز اور رضا کاروں کو مقرر کیا گیا ہے جو کیے جانے والے سوالات کے جوابات دیتی ہیں۔ اس ضمن میں اس بات کوبھی یقینی بنایا گیا ہے کہ رازداری کو برقرار رکھا جاتا ہے۔


متعلقہ خبریں