فیس بک میسنجر، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے انضمام کا فیصلہ


اسلام آباد: مارک زکربرگ نے فیس بک میسنجر، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کو آپس میں ضم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ایسا کرنے کے باوجود ایپلی کیشن علیحدہ رہیں گی لیکن ان کی میسیجنگ سروسز آپس میں جڑی ہوئی ہوں گی۔ صارفین کو اس طرح یہ سہولت حاصل ہوجائے گی کہ وہ ایک پلیٹ فارم سے سماجی رابطے کی دوسری ویب سائٹ پر پیغامات بھیج سکیں گے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق میسیجنگ سروسز ضم ہونے پر فیس بک صارف واٹس ایپ استعمال کرنے والے صارف سے بات کرنے کا مجاز ہوگا۔ فی الوقت یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ ایپلی کیشنوں کا مرکز مشترک نہیں ہے۔

مؤقرامریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق تین ایپلیکیشنوں کے میسیجنگ پلیٹ فارموں کو ضم کرنے کا کام 2019 کے اختتام یا 2020 کے آغاز تک مکمل ہو جائے گا۔

ایپلی کیشنوں کے ضم ہونے کے بعد مختلف کاروباری ادارے اور افراد ایک وقت میں ایک سے زائد پلیٹ فارموں تک ایک ہی وقت میں اپنے پیغامات بھیجنے کے مجاز ہوجائیں گے۔

بی بی سی کے مطابق فیس بک آسانی کے ساتھ تینوں ایپلی کیشنوں کا ڈیٹا شیئر کرسکتا ہے، اس وقت فیس بک میسنجر، واٹس ایپ اور انسٹا گرام ایک دوسرے کی حریف سمجھے جاتے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق تینوں ایپلی کیشنوں کو ضم کرنے سے سروسز کا مجموعہ اس قدر مضبوط بنادے گا کہ حکومتوں یا ریگولیٹری اداروں کی طرف سے ’فیس بک نیٹ ورک‘ کے اہم حصوں کو توڑنا مشکل ترین ہوجائے گا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق مارک زکربرگ اس بات کے خواہش مند ہیں کہ سروسز کو اور زیادہ کارآمد بنایا جائے تاکہ صارفین ایپلی کیشنوں کے استعمال کو مزید بڑھادیں۔

مارک زکربرگ کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ہم خواہش مند ہیں کہ صارفین باآسانی دوستوں اور رشہ داروں سے ان پلیٹ فارموں کے ذریعے رابطے کرسکیں۔ ان کے مطابق وہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ بھیجے جانے والے پیغامات اس حد تک محفوظ ہوں کہ جسے بھیجا جائے، صرف وہی انہیں پڑھ سکے اور کسی دوسرے کے لیے انہیں دیکھنا یا پڑھنا نا ممکن ہو۔

نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ زکر برگ کی جانب سے ایپلی کیشنوں کی میسجنگ سروسز کو ضم کرنے کے فیصلے کی وجہ سے کمپنی میں بے چینی پھیل گئی تھی۔

اخبار کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر گزشتہ سال انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے بانی اپنے اپنے مناصب سے دستبردار ہوئے تھے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق فیس بُک کی ڈیٹا ہینڈلنگ اور صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقوں پر تنقید اور تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

بی بی سی کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پر صارفین کے ڈیٹا کو تین پلیٹ فارموں پریکجا کرنے کا فیصلہ ریگولیٹری اداروں کو فیس بُک کے ڈیٹا ہینڈلنگ کے طریقوں پردوبارہ نظرثانی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں