آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظر ثانی کی اپیل مسترد

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے نظر ثانی کی اپیل مسترد کر دی ہے۔

سپریم کورٹ پاکستان میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مظہرعالم میاں خیل بھی بینچ کا حصہ تھے۔

سپریم کورٹ نے دیا کہ درخواست گزار فیصلے میں غلطی ثابت نہیں کر سکے ہیں، گواہ اصل حقائق سے لاعلم تھے اور عدالت میں غلط بیانی سے کام لیا۔ سب گواہان کے بیانات میں تضاد موجود ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سارا پاکستان ہلا کر رکھ دیتے ہیں کہ ہماری بات نہیں مانی اور الزام لگاتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں کہ بری کردیا۔ اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں کیس کیا بنایا ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے مقدمے کی حساسیت کا خیال کیا، ورنہ جھوٹی گواہی پر گواہوں کو اندر کرتے۔ اگر انصاف کردیا تو واجب القتل ہوگئے ؟

درخواست گزار کے وکیل غلام مصطفیٰ نے مؤقف اختیار کیا کہ نظرثانی درخواست کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے جس میں اسلامی اسکالرز اور علماء کرام کو شامل کیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مذہب کا معاملہ کیسے ہوا کیا فیصلہ میرٹ پر نہیں ہوا ہے ؟ فیصلہ شہادتوں پر ہوا ہے، کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ جرم ثابت نہ ہو تو پھر بھی سزا دے دیں ؟ آپ ثابت کریں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے۔

درخواست گزار نے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ فیصلے میں کہا گیا بار ثبوت مدعی پر ہے جب کہ سپریم کورٹ کے کچھ نظائر کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اگر کسی بیان پر جرح نہ کی گئی ہو تو اس بیان کو درست سمجھا جاتا ہے اور یہ لارجر بینچ کا فیصلہ ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس اصول سے اختلاف کرتے ہیں۔ اگر کوئی وکیل ملزم سے سوال پوچھنا بھول جائے تو کیا اسے پھانسی لگا دیں۔ آپ میرٹ پر بات کریں۔

وکیل قاری سلام نے کہا کہ بریت فیصلے میں آپﷺ کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدے کا حوالہ دیا گیا ہے جب کہ تمام علماء نے اس معاہدے کو باطل کہا ہے۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے جزیہ سے بچنے کے لیے یہ معاہدہ بنایا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اقلیتوں کا خیال رکھو اور اسلامی معاشرے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اقلیتوں کا خیال رکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اسلام کہتا ہے کہ سچی گواہی دو چاہے اپنے عزیز و اقارب کے خلاف بھی ہو، اگر ہم نے شہادت ٹھیک نہیں پڑھیں تو فوراً درست کریں گے۔

وکیل قاری سلام نے مؤقف اپنایا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ خواتین گواہان نے کہا کہ انہیں علم نہیں آسیہ کس سے بات کر رہی تھی۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے فیصلے میں بھی تو یہی لکھا ہے، آپ کہتے ہیں کہ آسیہ بی بی 25 لوگوں کو مخاطب کرکے کہہ رہی تھی کیا وہ کسی جلسے سے خطاب کر رہی تھی۔

بینچ کے سربراہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ  تفتیشی افسر کے سامنے خواتین گواہان نے کہا کہ ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا، تفتیشی افسر کہتا ہے کہ خواتین گواہان نے بیان بدلے، تفتیشی افسر اور گواہان کے بیان میں فرق ہے جب کہ فالسہ کھیت کا مالک عدالت میں بیان کے لیے آیا ہی نہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اتنے سچے گواہ نہیں تھے جتنے ہونے چاہئیں تھے، قانون کہتا ہے کہ 342 کا بیان نہیں ریکارڈ کرایا تو بیان کی کوئی حیثیت نہیں، تفتیش کے 20 دن بعد کھیت کا مالک میدان میں آیا، کھیت مالک کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کوئی بات ہم نے ریکارڈ کے خلاف لکھی ہے؟ مدعی قاری سلام نے اپنے بیانات بدلے،
قاری سلام کہتا ہے افضل نے اسے اطلاع دی جب کہ افضل حلف اٹھا کر کہتا ہے کہ یہ اس کے گھر آئے، ہم کچھ نہیں کہتے یہ سب مذہبی لوگ ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ قاری صاحب کہتے ہیں کہ 5 دن غور کرتے رہے جب کہ فوجداری قانون میں ایک گھنٹے کی تاخیر سے شکوک و شبہات شروع ہوجاتے ہیں۔

درخواست گزار قاری اسلام نے عدالت میں موقف اپنایا کہ مدعیوں کی جانب سے آسیہ کو کسی بدنیتی کی وجہ سے ملوث نہیں کیا گیا،جن خواتین نے ابتدائی الزام لگایا وہ قاری صاحب کی بیگم سے قران پڑھتی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قاری صاحب ایف آئی آر درج کروانے کے لیے 5 دن کیوں سوچتے رہے؟ 5 دن میں قاری صاحب نے ایک وکیل سے درخواست لکھوائی اور قاری صاحب کہتے ہیں کہ وہ وکیل کو نہیں جانتے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قاری اسلام سے مکالمے میں کہا کہ کہیں وہ وکیل صاحب آپ ہی تو نہیں تھے۔

عدالتی بینچ کے سربراہ نے کہا کہ قاری سلام کے بیان کے مطابق گاؤں والے اکھٹے ہوئے پھر ایف آئی آر درج ہوئی جب کہ گواہوں کے بیانات میں کہیں مجمع اکھٹا ہونے کا ذکر نہیں اور مجمع اکھٹا ہونے کے بارے میں بہت زیادہ جھوٹ بولا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عام مقدمہ ہوتا تو گواہان کے خلاف مقدمہ درج کرواتے، ہم نے بہت زیادہ تحمل سے کام لیا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے قاری اسلام سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہتے ہیں قابل اعتبار گواہ تھے ان کے بیانات پر پھانسی لگا دینی چاہیے آپ گواہوں کے بیانات کی حیثیت بھی تو دیکھیں، جھوٹی شہادت پر کہتے ہیں پھانسی لگا دیں کسی کو۔

وکیل قاری اسلام نے مؤقف اپنایا کہ بیانات میں تھوڑا فرق، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ جھوٹ ہے، قاری سلام نے حلف پر جو بیان دیا وہ پہلے بیان سے مختلف تھا یہ ایسا مدعی ہے جس کو یہ نہیں پتہ کہ اس کی درخواست کس نے لکھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قاری صاحب کو تو براہ راست بچیوں نے نہیں بتایا ہوگا پھر ان کو کیسے پتا چلا کہ یہ الفاظ کہے گئے، کیا اسلام کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں؟ اس طرح کے گواہ ہوتے ہیں؟ سب گواہان کے بیانات میں واضح تضادات ہیں اور آپ سارا پاکستان بلاک کردیتے ہیں کہ ہماری بات کیوں نہیں مانی گئی۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے الزام لگاتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں کہ بری کردیا، اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں کیس کیا بنایا ہے عدالت نے مقدمے کی حساسیت کا خیال کیا ورنہ جھوٹی گواہی پر گواہوں کو اندر کرتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سزائے موت کے کیس میں جھوٹی گواہی دینے والے کو عمر قید کی سزا ہے اور اگرعدالت نے انصاف کردیا تو واجب القتل ہوگئے؟یہ ہے اسلام؟ جو قاضی کہے کہ یہ شہادت قابل اعتبار نہیں تو اس قاضی کا فیصلہ آپ کو منظور نہیں، کیوں کہ فیصلہ آپ کی مرضی کا نہیں۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ان کی تسلی کے لیے درخواست سن رہے ہیں جنہوں نے بغیر پڑھے فتوے جاری کیے اور آپ فیصلے میں ایک بھی غلطی نہیں بتاسکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو فیصلے میں عام باتوں پر اعتراض ہے فیصلے پر نہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ یہ بتائیے جھوٹے گواہان کے خلاف کیا کرنا چاہیے، قانون کے مطابق سمری ٹرائل کے ذریعے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور ایسے کیس میں جھوٹی گواہی دی جس میں سزائے موت ہو سکتی ہے اور سزائے موت ہوئی بھی ہے۔

سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر 2018 کو آسیہ بی بی کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ تحریر کیا تھا جب کہ موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے میں اضافی نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں آسیہ بی بی کو معصوم اور بے گناہ قرار دیا جب کہ فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کو نو سال بعد ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

آسیہ بی بی کی رہائی کی فیصلے کے خلاف مدعی قاری عبدالسلام نے نظر ثانی اپیل دائر کر رکھی ہے۔

صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں جون 2009 کو ایک واقع پیش آیا جس میں کھیت کے دوران کام کرتے ہوئے دو مسلمان خواتین نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا تھا۔


متعلقہ خبریں