طالبان اور امریکہ مذاکرات سے افغان خواتین خوفزدہ


کابل: رحیمہ جامی افغانستان کی پارلیمنٹ میں قانون ساز ہیں لیکن 1996 میں جب طالبان کو اقتدار ملا تھا تو اس وقت وہ ہیڈ مسٹریس تھیں۔ انہیں جبری طور پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا اور ساتھ ہی اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ جب اپنے گھر سے باہر نکلیں گی تو ٹخنوں تک لمبا برقع لازمی پہنیں گی۔

رحیمہ جامی کو جب یہ علم ہوا کہ طالبان اور امریکیوں کے درمیان امن مذاکرات ہورہے ہیں اور وہ معاہدے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں تو جب سے مسلسل وہ اپنے پاؤں کی جانب دیکھ رہی ہیں۔

یہ بات مؤقر امریکی اخبار ’ نیویارک ٹائمز‘ نے اپنے ایک مضمون میں لکھی ہے۔

اخبار کے مطابق رحیمہ کے لیے وہ دن ناقابل فراموش تھا جب ان کے پاؤں نظر آنے کے ’جرم‘ میں وہاں تشکیل دی جانے والی ’مذہبی پولیس‘ نے گھوڑوں کو ماری جانے والی چابک سے انہیں بھرے بازار میں اس قدر مارا تھا کہ وہ اپنے پاؤں پہ کھڑی رہنے کے قابل بھی نہیں رہی تھیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق افغانستان کی خواتین پاس ایسی ہی دل دہلانے دینے والی خوفناک سچی کہانیاں ہیں کیونکہ وہ ان کہانیوں کا باقاعدہ جیتا جاگتا کردار رہی ہیں۔ متاثرہ خواتین میں زیاد تعداد ان کی ہے جو تعلیم یافتہ ہیں اور طالبان کے دور اقتدار میں 25 یا اس سے زائد عمر کی تھیں۔ طالبان کے دور حکومت میں بھیانک مظالم کا سامنا کرنے والی خواتین کو آج یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں امن معاہدے کے تحت امریکی افواج افغانستان سے واپس نہ چلی جائے اورانہیں ایک مرتبہ پھر انہی حالات کا سامنا کرنا پڑے جس سے وہ پہلے گزر چکی ہیں۔

چھ روزہ مذاکرات کے نتیجے میں فریقین ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ہیں اور یہ قربت 17 سال میں پہلی مرتبہ پیدا ہوئی ہے۔ طالبان کے اقتدار کا سورج بھی 17 سال قبل غروب ہوا تھا۔ فریقین کے مابین ہونے والے مذاکرات سے یہ امید بندھ چلی ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ میں مصروف ملک اس تباہی کے دہانے سے نکل جائے گا۔

افغانستان کی متعدد خواتین کو قوی امید ہے کہ ہونے والے معاہدے سے جاری جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن ساتھ ہی انہیں خوف بھی لاحق ہے۔

افغان ویمن نیٹ ورک کے قانونی شعبے کی سربراہ روبینہ ہمدرد کا کہنا ہے کہ ہم ایسے امن کے حامی یا خواہش مند نہیں ہیں جس میں خواتین کے حقوق کو صورتحال موجودہ دور کی نسبت زیادہ بدتر ہوجائے۔

افغانستان کی خواتین قطعی یہ نہیں چاہتی ہیں کہ جاری خون خرابے کا خاتمہ ان کے حقوق کے ’سودے‘ پر ہو کیونکہ انہوں نے گزشتہ کئی سالوں میں اپنے خاوندوں اور بیٹوں کی بیش بہا قربانیاں دی ہیں لیکن اس وقت انہیں یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں قیام امن کے معاہدے کی وجہ سے خواتین کے خلاف نئی جنگ کا آغاز نہ ہو جائے۔ افغان خواتین کے خیال میں مذاکرات کاروں کو بات چیت کے دوران خواتین کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

رحیمہ جامی کا کہنا ہے کہ خواتین بھی قیام امن کی خواہش مند ہیں لیکن اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ گزرے وقت کو یاد کرکے انہیں آج بھی بہت تکلیف ہوتی ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق رحیمہ جامی کو یقین ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت جب انہیں شریک اقتدار کیا جائے گا تو اس کی قیمت خواتین کی آزادی سلب کرنے سے ادا کی جائے گی۔ ان کے خیال میں اس مرتبہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو اپنے نا مکمل خواب کی تکمیل کریں گے اورماضی کی نسبت زیادہ ’پرتشدد‘ ہوں گے۔

قیام امن کے لیے ہونے والی بات چیت میں خواتین کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور جب افغان مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں تو اس میں خواتین کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے۔

افغانستان میں کاروبار کرنے والی لیلیٰ حیدری کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ افغان امن معاہدے سے خواتین متاثر ہوں۔ لیلیٰ حیدری منشیات سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے بھی کام کرتی ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ طالبان دور حکومت میں انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ ماضی میں بھی وہ ایران میں جلاوطن رہ چکی ہیں۔

لیلیٰ حیدری کے مطابق افغان حکومت نے جاری مذاکراتی عمل سے خواتین کو دور رکھا ہے اور ایک طریقے سے انہیں نظرانداز کیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق شکریہ بھی رکن پارلیمنٹ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں وہ وقت اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب گھروں سے باہر نکلنے کے لیے زبردستی ایک تاریک غار میں جانا پـڑتا تھا۔ اخبار کے مطابق ’تاریک غار‘ سے ان کی مراد برقع تھا۔

پیکان بھی یونیورسٹی میں پروفیسر تھیں جہاں سے انہیں زبردستی بیدخل کیا گیا اوران کی بیٹی کا اسکول بھی بند کردیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح سے دیگر بچیوں کے اسکولوں کو بند کیا گیا تھا۔

یونیورسٹی کی ملازمت سے فراغت کے بعد انہوں نے اپنے گھر پر ہی ایک اسکول کھولا جہاں وہ بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی تھیں اورانہیں سلائی کڑھائی سکھاتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت صرف انہی چیزوں کو پڑھانے اور سکھانے کی اجازت تھی۔

قندوز سے تعلق رکھنے والی پیکان کا کہنا ہے کہ وہ افغان امن معاہدے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کا سن کر ہی زمین پہ گر پڑیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دو مرتبہ رکن پارلیمنٹ رہنے کے علاوہ وہ یونیورسٹی کی پروفیسر رہی ہیں لیکن کسی نے ان سے طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی بابت نہیں پوچھا اورنہ ہی انہیں یہ بتانے کی ضرورت محسوس کی معاہدے میں ان کے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے گا۔

پیکان کے مطابق 40 سالہ طویل جنگ سے سب بہت تھک چکے ہیں لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ امن کی قیمت خواتین کی آزادی اور خودمختاری چھین کر ادا کی جائے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق گوکہ یہ سب کچھ ابھی بہت قبل از وقت ہے کیونکہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں کسی بھی افغان حکومتی نمائندے کو شریک نہیں کیا گیا خواہ وہ مرد ہو یا خاتون۔

اخبار کے مطابق امریکی حکام کو قوی امید ہے کہ طالبان مذاکرات کے آئندہ مرحلے میں افغان حکام کے ساتھ میز پر بیٹھیں گے جس سے وہ فی الوقت انکاری ہیں۔ امریکی حکام کو یقین ہے کہ ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں آئین پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا جس میں خواتین کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔

حبیبہ سرابی کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حقوق کے تحفط کے لیے آواز بلند کریں تاکہ انہیں بھول نہ جائیں۔ وہ ہائی پیس کونسل کابل کی ڈپٹی ہیں اور ان 15 خواتین میں شامل ہیں جن کا حکومت نے تقرر کیا ہے۔ ان کے خیال میں خواتین کی شمولیت کے بغیر کیا جانے والا معاہدہ نامکمل ہو گا لیکن اس کے باوجود ہونے والی بات چیت سے ہم پرامید ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق خوست سے تعلق رکھنے والی سیاستدان اور شاعرہ سائرہ شریف کے مطابق افغان حکومت نے ماضی میں کئی مرتبہ اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ مذاکراتی عمل سے خواتین کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے لیکن ہونے والی بات چیت میں انہیں شامل نہیں کیا گیا جب کہ ہم آئندہ مستقبل میں اپنا کردار دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔

سائرہ شریف کے مطابق خواتین نے حقوق کے حصول کے لیے ایک لمبا سفر طے کیا ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر امن معاہدے کے نام پر انہیں کھونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق پیکان کا کہنا ہے کہ طالبان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خواتین کے حقوق نہ صرف تسلیم کریں بلکہ اس بات کی ضمانت بھی دیں کہ ان کا تحفظ کیا جائے گا۔ ان کے خیال میں ضمانت طالبان کو اپنے بیان کے ذریعے دینی ہوگی جو شائع ہو۔ ان کے خیال میں یہ امر افسوسنا ک ہے کہ کوئی بھی اس پر بات نہیں کررہا ہے۔


متعلقہ خبریں