یورپی یونین نے جوآن گائیڈو کو وینزویلا کا صدر تسلیم کر لیا


وینزویلا: یورپی یونین نے جوآن گائیڈو کو وینزویلا کا عبوری صدر تسلیم کر لیا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق یورپی پارلیمنٹ نے جوآن گائیڈو کے حق میں قرارداد منظورکی جس میں انہیں باقاعدہ صدر تسلیم کیا گیا۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق یورپی یونین نے دیگر ممالک سے گائیڈو کو صدر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی یونین نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ دنیا جوآن گائیڈو کے بھیجے ہوئے سفارتکاروں کو تسلیم کرے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی وینزویلا کے عبوری صدر کے طور پر جوآن گائیڈو کو ٹیلی فون کرکے مبارکباد پیش کی ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق وائٹ ہاوس کی ترجمان سارہ سانڈریس نے جاری کردہ تحریری بیان میں کہا ہے کہ  صدر ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالنے پر وینزویلا کے عبوری صدر کو مبارکباد پیش کی اور وینزویلا کے عوام کی طرف سے جمہوریت کی پاسداری کے لیے کی جانے والی کوششوں کے ساتھ بھرپور تعاون کا اعادہ بھی کیا۔

خبررساں اداروں کے مطابق وینزویلا کے صدر نے بھی وینزویلا کے ساتھ تعاون پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ نے چار دن قبل واضح کیا تھا کہ وینزویلا میں آٹھ دن کے اندر انتخابات کا اعلان نہ ہوا تو ہم قومی اسمبلی کے اسپیکر جوآن گوآئیڈو کو ملک کا صدر تسلیم کر لیں گے۔

انہوٓں نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر جوآن گائیڈو وہ شخصیت ہیں جو ملک کو ترقی کی طرف لے کر جائیں گے۔

برطانوی وزیرخارجہ نے مادورو کو وینزویلا کا جائز سربراہ بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

وینزویلا میں نکلنے والے جلوس میں اسپیکر جوآن گائیڈو نے خود کے عبوری صدر ہونے کا اعلان کردیا تھا۔ نکالا گیا جلوس حزب اختلاف کا تھا جسے اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔

ان کی صدارت کو کینیڈا، کولمبیا، پیرو، ایکواڈور، پیراگوئے، برازیل، چلی، پاناما، ارجنٹائن، کوسٹا ریکا اور گوئٹے مالا جیسے ممالک کی طرف سے تسلیم بھی کر لیا گیا تھا۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق میکسیکو، ترکی، روس، چین اور بولیویا نے مادورو کے ساتھ تعاون کا اعادہ کیا تھا۔ صدر مادورو نے امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

صدر نکولس مادورو نے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ امریکہ اور وینزویلا کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہو گئے ہیں لیکن تجارتی تعلقات جاری رہیں گے۔

ترکی کے نشریاتی ادارے ’ٹی آرٹی‘ کے مطابق وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے کہا تھا کہ وینزویلا دینا کا سب سے زیادہ پیٹرول کے ذخائر کا مالک ملک ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکی انتظامیہ لیبیا اورعراق کی طرح ان کے ملک کے پیٹرول پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے مؤقف اختیارکیا تھا کہ ہم، دنیاکے سب سے زیادہ سونے کے ذخائرکے مالک ہیں اورہمارے پاس موجود گیس کا ذخیرہ دنیا کا چوتھا بڑا ذخیرہ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کے ہم پر حملہ کرنے کا سبب ہمارے وسیع پیمانے کے قدرتی وسائل اور توانائی کے ذخائر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وینزویلا کے خلاف ایک نفسیاتی اور ذرائع ابلاغ کی جنگ شروع ہو گئی ہے جس کے ساتھ امریکہ سمیت بین الاقوامی سطح پر تعاون کیا جا رہا ہے۔

صدر نکولس مادورو نے اپنے ویڈیو پیغام میں امریکی باشعور عوام سے اپیل کی تھی کہ آئیے! لاطینی امریکہ کو ویتنام بننے سے بچائیں۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ نے وینزویلا میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تو اسے توقع سے کہیں زیادہ خراب ویتنام کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میری آپ سے اپیل ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں موجود مائیک پومپیو، جون بولٹن اور مائیک پینس جیسے متعصبوں کے وینزویلا کے بارے میں جھوٹے بیانات پر یقین نہ کریں اور ان کے زیر انتظام جاری، حکومت پر حملے کی کوشش کو کامیاب ہونے کا موقع نہ دیں۔

وینزویلا کے صدر کا کہنا تھا کہ آئیے! تشدد کا اس کے آغاز میں ہی سدباب کریں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ہم پر امن عوام ہیں اور سیمون بولیوار ہوگو شاویز کی تاریخ کے وارث بھی ہیں۔

امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ سے کہیں زیادہ بڑا ہے لہٰذا میں مسائل کو پُرامن اور سفارتی طریقوں سے حل کرنا چاہتا ہوں۔

صدر نکولس مادورو نے کہا تھا کہ وینزویلا کے عوام کا احترام کرنے کی درخواست کرتا ہوں اور براعظم امریکہ کو ویتنام بننے سے بچانے کے لیے امریکی عوام کے تعاون کا طلبگار ہوں۔

نکولس مادورو نے دو دن قبل دعویٰ کیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وینزویلا میں جاری سیاسی بحران کے ذمہ دار ہیں۔ مادورو نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ ٹرمپ نے کولمبیا کی حکومت اور مافیا کو ان کے قتل کا حکم دیا ہے۔

امریکہ اور وینزویلا کے تعلقات میں زیادہ تر کشیدگی کا عنصر غالب رہا ہے۔ وینزویلا کے آنجہانی صدر ہوگو شاویز کے دور صدارت میں بھی دونوں ممالک کے مابین سخت کشیدگی پائی جاتی تھی۔

دلچسپ امر ہے کہ خود کو وینزویلا کا عبوری صدر اعلان کرنے والے قومی اسمبلی کے اسپیکر جوآن گائیڈو نے مراکش کے ساتھ دوبارہ سے سفارتی تعلقات کی بحالی کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ ہم صحرائے غربی کو حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔

ٹی آرٹی نے مراکش کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’MAP‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ وینزویلا پارلیمنٹ کے خارجہ امور کے مشیر مانوئیل آوینڈانو نے کہا ہے کہ ہم ،پولیساریو فرنٹ کی طرف سے جلا وطنی کے دوران قائم کی گئی صحرائے غربی حکومت کو تسلیم کرنے کے پہلو پر نظر ثانی کریں گے۔

آوینڈانو نے کہا ہے کہ نام نہاد صحرائے غربی حکومت کو تسلیم کیا جانا سیاسی و پُرامن حل سے زیادہ بائیں بازو کی آئیڈیولوجی سے منسلک ہے۔

بیان میں مراکش کے وزیر خارجہ بوریتا نے کہا ہے کہ مراکش وینزویلا کے حالات پر بغور نگاہ رکھے ہوئے ہے اور وینزویلا کے عوام کی جمہوریت اور تبدیلی کی جائز خواہشات کو قبول کیے جانے کے لئے اٹھائے گئے تمام اقدامات کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔

مراکش نے 2009 میں ملک کی زمینی سالمیت پر حملے اور پولیسارو فرنٹ کے ساتھ تعاون کی وجہ سے وینزویلا کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

وینزویلا میں کاراکاس بلدیہ چئیر مین کو صدر نکولس مادورو کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دعووں کے بعد حراست میں لیے جانے کے بعد سے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

حکومت کے مخالفین مسلسل مظاہرے کررہے ہیں جس کے دوران جھڑپیں بھی ہورہی ہیں اور اب تک تقریباً 41 سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔


متعلقہ خبریں