پاکستان آنےکی حامی بھرنے والے کھلاڑیوں کاانتخاب کیا،جاوید آفریدی

فوٹو: فائل


یوں تو جاوید آفریدی محب وطن پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ معروف کاروباری شخصیت ہیں تاہم کرکٹ کے لیے ان کا جنون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) فرنچائز پشاور زلمی اور جنوبی افریقہ کی ٹی ٹوئنٹی گلوبل لیگ کے مالک ہیں۔

کرکٹ اور دیگر امور پر ہم ڈیجیٹل کی ان سے گفتگو ہوئی جس کے دوران انہوں سوالات کے دلچسپ جواب دیے۔

سوال:  پشاور زلمے پی ایس ایل کی سب سے بہترین ٹیم ثابت ہوئی ہے، اس بار کیا توقعات ہیں؟

جاوید آفریدی: ہم نیوز کے ساتھ اشتراک سے گراس روٹ پرموجود کرکٹ فینز سے رابطہ ہوگا۔ پی ایس ایل کی بڑی فرنچائز پشاور زلمی کا میڈیا کے بڑے گروپ ہم نیٹ ورک سے جڑنا دونوں انڈسٹریوں کے لیے حوصلہ افز خبر ہے۔ دونوں کے اتحاد سے عوام کو تفریح کے بہتر مواقع میسر آئیں گے۔

پشاور زلمی کا اب تک کا سفربہترین رہا ہے، زلمی پی ایس ایل کے تینوں سیزنز میں نمایاں ٹیم بن کر ابھری ہے۔ ہم پی ایس ایل ٹو میں چیمپنز بنے جبکہ گزشتہ سال دوسرے نمبر پر آئے۔

نیلسن کے مطابق برانڈ ویلیو کے حساب سے پشاور زلمی نمبر ون ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ بہترین برانڈنگ سے دنیا بھر میں اپنے کرکٹ فینز بنائے ہیں، پاکستان کی کھیلوں کے سب سے بڑے فرنچائز کے طور پر پہچان ہمارے لیے باعث فخر ہے۔

زلمی فاوئڈیشن نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ راغب کرنے اور سرگرم رکھنے کے لیے زلمے مدرسہ لیگ، زلمے اسکول لیگ، ہائیر زلمے 100 پچیز اور زلمے آزادی کپ کی صورت میں پورا سال سرگرم رہتی ہے۔ فاؤنڈیشن نے اسی سلسلے میں اقوام متحدہ کے ساتھ بھی اشتراک کررکھا ہے۔

سوال: زلمے نے پی ایس ایل کے مچوں کو پاکستان لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، یہ کتنا چیلنجنگ کام تھا؟

جاوید آفریدی: ابتداء میں دورہ پاکستان کے حوالے سے کھلاڑیوں کا رویہ سخت اور ہچکچاہٹ بھرا تھا لیکن یہ سب اس طرح جڑ گئے کہ سب کو لگا وہ بڑے ایک مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں، انہوں نے ٹورنامنٹ جیتنے کا فیصلہ کیا اور ایسا کرتے ہوئے ان کی سوچ انفرادی سطح سے بلند ہوچکی تھی۔ اسی جذبے نے پاکستان میں عالمی کرکٹ کی واپسی کا راستہ ہموار کیا، ہم نے پی ایس ایل فور میں صرف ان کھلاڑیوں کا انتخاب کیا ہے جنہوں نے پاکستان آنے کی حامی بھری ہے، ہمارا مقصد کرکٹ اور لوگوں کے لیے خوشیاں لانا ہے۔

سوال: ڈیرن سیمی کے پاکستان سے پیار کو کیسے بیان کریں گے؟

جاوید آفریدی: ڈیرن سیمی نہ صرف دنیا کے بہترین اور کامیاب کپتان ہیں بلکہ بطور کرکٹران کی مقبولیت بے تحاشا ہے۔ دنیا بھر کے کرکٹ فینز انہیں چاہتے ہیں لیکن پاکستانی شائقین سے ان کا رشتہ الگ ہے۔ پاکستان کے لوگوں نے انہیں کسی اپنے کھلاڑی کی طرح عزت دی جبکہ انہوں نے بھی پاکستانی عوام سے بھرپور محبت کا اظہار کیا۔ قومی زبان بولنے کی کوشش ہو یا پاکستانی کھانوں سے متعلق راغبت دکھانا ہو، سیمی اس معاملے میں دل سے پاکستانی ہیں۔

سوال: پی ایس ایل کا آغاز کیسے ہوا؟ آپ کے خیال میں یہ کرکٹ ڈوپلمنٹ کے لیے درست راستے پر گامزن ہے؟

جاوید آفریدی: صرف تین سالوں میں پی ایس ایل پاکستان کا سب سے بڑا ایونٹ بن گیا ہے۔ کرکٹ کا جنون پاکستانی عوام کی رگوں میں ہے، لوگ بے چینی سے فروری میں ہونے والے پی ایس ایل کا انتظار کررہے ہیں۔ پی ایس ایل کی مقبولیت میں ہرسال اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال پی ایس ایل فور کے براڈکاسٹنگ رائٹس اور ٹائٹل اسپانسرشپ کا انتہائی مہنگے داموں فروخت ہونا ہے۔ میرایقین ہے کہ پی ایس ایل میں بہت جان ہے اور یہ صرف ابتداء ہے۔ پاکستان میں آٹھ میچ ہورہے ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاملات درست سمت میں بڑھ رہے ہیں۔

پی ایس ایل کا اصل چہرہ تب سامنے آئے گا جب سارے میچز پاکستان میں ہوں گے اور وہ دن بہت دورنہیں ہے۔ ایک بار یہ عمل شروع ہوگیا تو فٹ بال کی طرز پر ہوم اور اوے میچزمتعارف کرائیں گے۔ جب جب ٹیمیں اپنے ہوم گروانڈز پر میچز کھیلیں گی تو اس میں مقامی لوگوں کی دلچسپی بڑھے گی۔

سوال: پشاور گزشتہ کچھ سالوں سے امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے خبروں میں رہا ہے، لیکن زلمی مثبت چہرے کے طورپرابھرکرسامنے آیا، اس صورتحال کو کیسے بیان کریں گے؟

جاوید آفریدی: اسی خطے سے تعلق ہونے کے باعث یہ صورتحال غم زدہ کرنے والی تھی لیکن مجھے امید ہے کہ مستقبل قریب میں حالات بہتر ہوجائیں گے۔ پشاورمیں امن وامان کے حالات بہترہو گئے ہیں اور لوگ ارباب نیازاسٹیڈیم میں تزہین وآرائش کے کام شروع ہونے پر خوش ہیں اور امید ہے کہ جلد پشاورمیں پی ایس ایل کے میچز دیکھیں گے۔ پشاور جلد اس طرح کے ایونٹس کا گڑھ بن جائے گا۔

سوال: پی ایس ایل کے تینوں ایڈیشنز میں فرنچائززکو خسارے کا سامنا رہا، نقصان کے باوجود اس سے جڑے رہنا کتنا مشکل تھا؟

جاوید آفریدی: یہ تب مشکل نہیں لگا جب ہمارا پشاورزلمی کے لیے ویژن مالی مفادات سے بڑا تھا۔ پشاور زلمی صرف ایک کرکٹ فرنچائز نہیں ہے بلکہ زلمی فاونڈیشن کے فورم سے یہ پورا نوجوانوں کو متحرک کرنے اور کرکٹ کی نچلی سطح تک منتقلی کے لیے سرگرم رہتی ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارا مقصد پاکستان کی مثبت تصویرپیش کرنا ہے اور عالمی کرکٹ کو واپس پاکستان لانا ہے۔ اگر آپ کےارادے بڑے مقصد کے لیے واضح ہیں تو آہستہ آہستہ چیزیں درست ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ ہم خوش ہیں کہ جس طرح زلمی نے تین سالوں میں ترقی کی ہے اور یہ صرف ابتداء ہے۔ مقصد لوگوں کو پرمثبت اثرڈالنا ہے، اپنی روایات کو مضبوط بنانا ہے اگر یہ کام ہوگیا توسارا نقصان منافع میں تبدیل ہوجائے گا۔

سوال: آپ کے خیال میں پی ایس ایل چیمپین بمقابلہ آئی پی ایل، بگ بیش یا کسی بھی لیگ کے مقابلے کا وقت آگیا ہے؟

جاوید آفریدی: ہم مستقبل کے لیے اسی طرح کے لائحہ عمل پر کام کررہے ہیں اور اسی مقصد کے لیے ہم نے جنوبی افریقہ میں بنونی زلمی کو خریدا ہے، اس طرح کے ایونٹس سے دنیا بھر میں کرکٹ کمیونٹی کو وجود میں آنے کا موقع ملے گا۔ ہمارے پاس پہلے ہی دنیا کے مختلف ممالک سے کھلاڑی  ٹی ٹوئنٹی لیگز کے لیے موجود ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی یورپ کی چیمپنئز لیگ کی طرح کرکٹ میں بھی متعارف کرائیں، یہ قدم کرکٹ کے لیے بہت فائدہ مند ہوگا۔

سوال: حسن علی پشاورزلمی کی ہی پراڈکٹ ہے، وہاں سے اب وہ دنیا کے بہترین بولر بن چکے ہیں، اس کی کامیابی پرآپ کے کیا احساسات ہیں؟

جاوید آفریدی: پشاور زلمی سے ابتدا کرنے والے حسن علی کا دنیا کا ایک روزہ کرکٹ کا بہترین کھلاڑی بننا ہمارے دل کے بہت قریب ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ پلیٹ فارم تمام نوجوان کھلاڑیوں کے لیے قومی ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے اہم ثابت ہوگا۔ ہماری کرکٹ کے لیے یہ بہت حوصلہ افزاء بات ہے کہ قومی ٹیم میں بہت سارے کھلاڑی پی ایس ایل سے ٹیم میں شامل ہوئے ہیں۔

سوال: پی ایس ایل فور کے لیے آپ کا کیا ہدف ہے؟

جاوید آفریدی: ہمارے فینز ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ہمارا مقصد بھی ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔ ہم ان سے زیادہ سے زیادہ رابطے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ زیادہ جوش و خروش سے جذبے کو بڑھائیں۔ فینز اور ہم مل کر ’کرکٹینمنٹ‘ کو آگے بڑھائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ گزشتہ تین سالوں کی طرح ہم اچھی کرکٹ کھیلیں گے اور ہماری ٹرافیوں میں ایک اور اضافہ ہوگا۔ ہم پی ایس ایل فور کی ٹرافی پشاور لانے کے لیے پوری جان ماریں گے۔


متعلقہ خبریں