بانو قدسیہ کو ہم سے بچھڑے دو برس گزر گئے


 اسلام آباد: بانو قدسیہ اردو ادب کا وہ نام جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور آج اس عظیم کردار کو ہم سے بچھڑے دو برس گزر گئے۔

بانو قدسیہ  اردو ادب کا وہ نام ہیں جنھوں نے اردو زبان کو ایک نیا رنگ اور نیا انگ دیا۔ جب جب بھی اردو ادب کا ذکر ہوگا تب تب بانو قدسیہ کا نام ضرور آئے گا۔

محبت کی تلخ حقیقت کو شگفتگی و شائستگی سے بیان کرنا، اردو زبان پر مضبوط گرفت اور خوبصوت استعاروں کا استعمال ہی وہ خصوصیات تھیں جنہوں نے بانو قدسیہ کو اردو ادب کا ایک بڑا نام بنایا۔

بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو  بھارت میں پیدا ہوئیں

معروف ادیبہ 28 نومبر 1928 کو  بھارتی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں۔1950 میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔ بانو قدسیہ نے  کالج کے زمانے سے ہی رسالوں میں تحریر کرنا شروع کیا اور پھر یہ سلسلہ ریڈیو تک جا پہنچا اور یہی نہیں انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور سیریز تحریر کیے۔

 مشہور افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور ان ہی کی حوصلہ افزائی پر1950 میں اپنا  پہلا افسانہ ’’داماندگی شوق‘‘ لکھا جو اس وقت کے ایک اہم ادبی جریدے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا تاہم ان شہور تحریروں ‘راجہ گدھاورامر بیلنے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔

بانو قدسیہ کی اہم تصانیف

ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، دست بستہ اور سامان وجود شامل ہیں۔ ایک دن، شہرلا زوال، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں بھی اہم تصانیف ہیں۔

بانو قدسیہ ہلال امتیاز اورستارہ امتیاز کے ایوارڈز بھی ملے

بانو قدسیہ کو بہترین کارکردگی پر ہلال امتیاز اورستارہ امتیاز کے ایوارڈز سے نواز گیا ہے۔ اردو ادب کا اہم نام  چار فروری 2017 کو ہم سے بچھڑ گیا۔ ان کے خلا کو کوئی پُر نہیں کرسکتا۔


متعلقہ خبریں