ٹرمپ اور کم جونگ کے درمیان 27 فروری کو ویتنام میں ملاقات ہوگی


اسلام آباد: امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان 27 فروری کو ویتنام میں ملاقات ہوگی۔ اس کا اعلان امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان رابرٹ پلا ڈینو نے کیا۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق دونوں سربراہان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں شمالی کوریا کے نيوکليائی اسلحہ کی مکمل تخفيف پر بات ہو گی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق ٹرمپ اور کم جونگ کے درمیان جزیرہ نما کوریا میں پائیدار امن کے قیام پر تبادلہ خیال ہو گا۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ امریکہ اور شمالی کوریا کے مابین تعلقات کی بہتری بھی زیرِ غور آئے گی۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان رابرٹ پلا ڈینو کا کہنا ہے کہ ملاقات کے لیے ویتنام کا انتخاب علامتی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اس کا مقصد تنازعات اور تقسیم کے خاتمے کا پیغام دینا ہے۔

اپریل 2018 میں جب واشنگٹن اور پیانگ یانگ کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے کی خبر دنیا کو ملی تھی تو وہ ورطہ حیرت میں پڑ گئی تھی۔

دونوں ممالک کے مابین کئی دہائیوں کا فاصلہ تھا اور تسلسل کے ساتھ دونوں حکومتوں کے اعلیٰ حکام دہمکیاں بھی دیتے رہے تھے مگر تعلقات میں ’ٹرننگ پوائنٹ‘ اس وقت آیا جب امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ مائک پومپیو نے اپنی بطور سیکریٹری خارجہ نامزدگی کے بعد انتہائی خاموشی سے پیانگ یانگ کا دورہ کیا۔ اس وقت دنیا میں ایسٹر کی تعطیلات بھی تھیں۔

اس دورے میں دونوں ممالک کے سربراہان کی ملاقات کی تاریخ اور مقام دونوں متعین کیے گئے تھےاور ساتھ ہی ہونے والی بات چیت کے ایجنڈے پر بھی گفتگو ہوگئی تھی۔

عالمی ذرائع ابلاغ نے بتایا تھا کہ ملاقات کے لیے ابتدا میں پانچ مقامات کا انتخاب کیا گیا تھا۔

امریکی ذرائع ابلاغ میں اس وقت یہ بات سامنے آئی تھی مائک پومپیو کے دورہ شمالی کوریا سے قبل 2014 میں بھی امریکی ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس جیمز نے بھی شمالی کوریا کا خفیہ دورہ کیا تھا۔ اس وقت خفیہ دورے کا مقصد امریکی قیدیوں کی واپسی کو یقینی بنانا تھا۔

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کم جونگ سے پہلی ملاقات سے قبل اپریل 2018 میں کہا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ سے ملاقات کامیاب ہوگی لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ اگر کم جونگ سے ملاقات کا دور فائدہ مند ثابت نہ ہوا تووہ بات چیت کے دوران ہی اٹھ کرباعزت طریقے سے چلے جائیں گے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان جب جون 2018 میں سنگاپور کے ہوٹل میں ملاقات ہوئی تو وہ تاریخ ساز لمحہ تھا کہ جب دونوں ممالک کے سربراہان نے نے 67 سال کی دشمنی بھلا کر ایک دوسرے سے ہاتھ ملا یا تھا۔

شمالی کوریا کے سربراہ امریکی صدر سے ملاقات سے قبل اپنے بہترین سیاسی و معاشی حلیف چین کے خفیہ دورے پر بیجنگ گئے تھے۔ دورے کو خفیہ رکھنے کے لیے انہوں نے ٹرین کا سفر اختیار کیا تھا۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق کم جونگ ان کو ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات پہ آمادہ کرنے میں چین کا انتہائی اہم کردار تھا۔

سنگاپور کے کیپیلا ہوٹل میں 35 منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات میں کم جونگ ان نے کوریا سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے عزم کا اظہا کیا تھا۔ ملاقات کے ابتدائی دور میں دونوں سربراہان کے علاوہ صرف مترجمین نے شرکت کی تھی۔

امریکی صدر نے ملاقات سے قبل جاری کردہ اپنے ٹوئٹ پیغام میں کہا تھا کہ میں کم جونگ ان کے ساتھ مل کر بہت بڑا مسئلہ حل کروں گا۔ انہوں نے ملاقات کو امن کا واحد موقع بھی قراردیا تھا ۔

دونوں صدور کی ملاقات کے دوسرے دورمیں امریکہ اور شمالی کوریا کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے تھے۔

امریکی وفد میں سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو، چیف آف اسٹاف جان کیلی اور ٹرمپ کے سکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن شامل تھے۔ تاریخ ساز ملاقات میں شمالی کوریا کی نمائندگی وزیر خارجہ اوردیگر اعلیٰ حکام نے کی تھی۔

ملاقات کے موقع پر ایک صحافی نے کم جونگ ان سے سوال کیا کہ کیا آپ جوہری ہتھیار تلف کریں گے؟ تو اس سوال پر شمالی کوریا کے سربراہ نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

سنگاپور میں تاریخی ملاقات سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ امریکہ اور شمالی کوریا کےنمائندوں کی ملاقاتیں اچھی جارہی ہیں۔ انہوں نے اسی ٹوئٹ میں یہ بھی واضح کردیا تھا کہ ان ملاقاتوں کی زیادہ اہمیت نہیں ہے کیونکہ جلد معلوم ہوجائے گا کہ حقیقی ڈیل ممکن ہے یا نہیں؟

ملاقات سے قبل سامنے آنے والی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے خاتمے پر بات چیت ہوگی اور کورین جنگ کے باضابطہ خاتمے پر بھی بات چیت کا امکان ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ملاقات سے قبل شنگریلا ہوٹل میں مقیم رہے۔ دونوں رہنماؤں کی ملاقات جزیرہ سینٹوسا کے کیپیلا ہوٹل میں ہوئی۔

ملاقات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کم جونگ سے ملاقات توقع سے زیادہ بہتر رہی۔ ٹرمپ نے اس لحاظ سے تاریخ رقم کی ہے کہ وہ اپنے دور صدارت میں کسی بھی شمالی کوریا کے رہنما سے ملاقات کرنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں۔

شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان نے ملاقات کو ’فلم‘ جیسا قرار دیتے ہوئے کہا کہ تبدیلی آئے گی اور امن کی طرف پیش رفت بھی ہوگی۔

کورین ذرائع ابلاغ کے مطابق شمالی کوریا کے صدر نے اپنی روایت کا دامن نہیں چھوڑا اور ٹرمپ سے ملاقات کےلیے سات منٹ قبل پہنچے۔ کورین روایات کے مطابق کم عمرتعظیماً ملاقات کے مقام پر پہلے آتا ہے۔

سنگاپور کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان کے درمیان ہونے والے مذاکرات پرتقریبا دو کروڑ ڈالر کا خرچ آیا تھا۔ شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے قیام پر آنے والے اخراجات سنگاپور ہی کی ذمہ داری تھے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق زیادہ تراخراجات سیکیورٹی اور تین ہزار سے زائد صحافیوں کی میزبانی پرآئے تھے۔


متعلقہ خبریں