’کراچی کو پاکستان کا ڈسٹ بن بنا دیا گیاہے‘



اسلام آباد: کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم زمان خان کا کہنا ہے کہ کراچی کو پاکستان کا ڈسٹ بن بنا دیا گیا ہے۔ کراچی سوتیلا منی پاکستان ہے، ارباب اختیار اسے اپنا جائز حق دینے کو تیار نہیں ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے میزبان عامرضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  پاکستان کے دیگر بڑے شہر ماس ٹرانزٹ کی طرف جا رہے ہیں جب کہ کراچی مائیکروٹرانزٹ کی طرف جا رہے ہیں۔

فہیم زمان نے بتایا کہ اس وقت کراچی کی سالانہ جی ڈی پی 118 ارب ڈالر ہے جبکہ لاہور کی 40 ارب ڈالر اور فیصل آباد کی 18 ارب ڈالر ہے۔ 2013 سے 2018 کے دوران لاہور میں 853 روپوں کے ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ جبکہ کراچی کے بلدیاتی اداروں کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی وفاقی ٹیکسوں کا 54 فیصد کراچی سے وصول ہوتا ہے، سندھ کے 87 فیصد ٹیکس کراچی سے حاصل ہوتا ہے لیکن اس شہر پر خرچ کچھ نہیں کیا جاتا۔

کراچی کی ٹرانسپورٹ کی تباہی کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا جب افغان جنگ کی وجہ سے منشیات کا پیسہ ٹرانسپورٹ میں خرچ ہونا شروع ہوا۔

سینئر صحافی عامر ضیاء نے بتایا کہ 1998 میں کراچی میں 20 ہزار بسیں چلتی تھیں جو 2018 میں گھٹ کر 10 ہزار رہ گئی ہیں، اسی عرصے کے دوران منی بسوں کی تعداد بھی 22 ہزار سے کم ہو کر 12 ہزار ہو گئی ہے۔

اربن ٹرانسپورٹ کے ماہ ملک ظہیرالاسلام نے بتایا کہ 1964 میں کراچی سرکلر ریلوے شروع ہوا تو اس پر ماہانہ ڈھائی لاکھ لوگ سفر کرتے تھے، 1990 کی دہائی میں اسے نظرانداز کیا گیا اور 1999 میں یہ منصوبہ بند ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (کے ٹی سی) بند کرنا پڑی کیونکہ اس میں 40 فیصد پیسہ کھایا جا رہا تھا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں ٹرانسپورٹ کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور اسے ٹرانسپورٹ مافیا کے سپرد کر دیا گیا، 1990 کی دہائی میں کراچی میں 200 روٹس چل رہے تھے جبکہ آج یہ کم ہو کر صرف 85 رہ گئے ہیں۔

ملک ظہیرالاسلام نے کہا کہ کراچی میں فری ٹرانسپورٹ پالیسی پر عمل ہو رہا ہے، حکومت کو اسے ریگولرائز کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ تمام منصوبوں کے لیے 1500 سے 200 بسوں کی ضرورت ہے اور اس کے ذریعے پورے کراچی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔


متعلقہ خبریں