قتل کا ملزم 10 سال بعد بری

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم اسفندیار کو 10 سال بعد بری کر دیا۔

سپریم کورٹ میں قتل کیس کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کهوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی.

عدالت نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لیے ملزم کو بری کیا جاتا ہے۔ مجسٹریٹ شناخت پریڈ درست نہیں کی اور نہ ہی قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔

سپریم کورٹ نے مجسٹریٹ کنور انوار علی کو 22 فروری کو ذاتی حثیت میں طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایسے کیس دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ ایسا سلوک کیوں کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ایک بچہ قتل ہو گیا لیکن مجسٹریٹ کی جانب سے غلط شناخت پریڈ اورقانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی وجہ سے ملزم کو سزا ہو گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جنہوں نے قانون پر عمل کرنا ہے ان سے پوچهنا تو چاہیے کہ کیا مجسٹریٹ لگانے سے پہلے ان کی ٹریننگ نہیں ہوتی ؟

سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مجسٹریٹ کو تعیناتی سے پہلے کورسسز کرائے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عدالتی قانون سے ہٹ کر فیصلہ نہیں دے سکتے لیکن ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے قانون کو کیوں نہیں دیکها ؟ یہ ملک ہمارا ہے اس میں ہمارے بچوں نے رہنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم روز قتل کیسز میں دیکهتے ہیں پولیس اصل ملزم تک پہنچ جاتی ہے۔ ملزم اصل ہوتا ہے لیکن شہادتیں سب نقلی ہوتی ہیں۔ اگر ہم بهی آنکهیں بند کر دیں تو قانون کہاں جائے گا۔ یہاں ایسا لگتا ہے ملزم گرفتار ہوا پهر شہادتیں بنائی گئیں۔

لاہور کے رہائشی عادل بٹ کو 2009 میں قتل کر کے اس کی لاش کو نہر میں پهینک دیا گیا تها اور قتل کے الزام میں اسفندیار کو گرفتار کیا گیا۔

ٹرائل کورٹ نے ملزم اسفندیار کو سزائے موت سنائی تھی جب کہ ہائی کورٹ نے ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔


متعلقہ خبریں