سندھ میں ملازمین کی ڈیپوٹیشن، عدالت نے چھ ماہ میں تمام مقدمات نمٹانے کا حکم دے دیا

کوروناوائرس کیخلاف یکساں پالیسی مرتب دینے کیلئے وفاق کو ایک ہفتے کی مہلت

فوٹو: فائل


اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ  میں ملازمین کی ڈیپوٹیشن  کے معاملے میں  سندھ حکومت کو حکم دیا ہے کہ تمام مقدمات چھ ماہ کی مدت میں نمٹائے جائیں۔

جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے  کیس کی سماعت کی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس فیصل عرب بھی بینچ کا حصہ تھے۔

سندھ میں ملازمین کی ڈیپوٹیشن کے معاملے کی سماعت کرنے والے  بینچ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ وہ قانون دکھائیں جس کے تحت کسی کو انڈکٹ کیا جا سکے، جو ملازمین ڈیپوٹیشن پر آئے ان کو واپس ان کے محکموں میں بھیجیں۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کا بتایا کہ اس موقع پر ایسا ممکن نہیں ہے کچھ ملازمین اب گریڈ 20 میں ہیں۔

جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے، وہ بندہ کون ہے جس نے یہ سب کیا ہے؟ یہ قوانین ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔

بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ یہ تمام بھرتیاں کب ہوئیں؟

وکیل افتخار گیلانی نے بتایا کہ یہ بھرتیاں 1994 سے 1997 کے درمیان ہوئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ان تمام ملازمین کو پراجیکٹ ملازمین کے طور پر انڈکٹ کیا جا سکتا تھا۔

وکیل سلمان اکرم راجہ یہ ملازمین صرف ایک پراجیکٹ کے لیے نہیں بلکہ واپڈا کے جنرل ملازمین تھے۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت کے پاس فیصلے کو ماننے یا انکار کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 187 اس پر لاگو ہو گا، ملازمین متعلقہ فورم پر اپنے مقدمات چیلینج کر سکتے ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہم الگ الگ درخواستیں نہیں سن سکتے، درخواست گزار سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد مانگ رہے ہیں۔

فیصلے میں درج ہے کہ یہ درخواست گزار نا ڈیپوٹیشن پر آتے تھے نہ واپڈا میں تھے بلکہ سندھ حکومت کے ملازمین تھے، حکومت سندھ تمام کیسز کو انفرادی طور پر دیکھے اور چھ ماہ میں تمام مقدمات کا فیصلہ کیا جائے۔


متعلقہ خبریں