سائبر کرائم قانون کے تحت 28 ہزار شکایا ت موصول


اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے) کو گزشتہ 28 ماہ میں سائبر کرائم کے قانون کے تحت 28 ہزار شکایا ت موصول ہوئیں۔

اسلام آباد:موصول شکایات میں سے صرف 5 ہزار رجسٹرڈ کی گئی ہیں جبکہ 300 کے خلاف ریاست مخالف مواد پھیلانے کے الزامات کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

اس بارے میں سائبر کرائم کے سربراہ کیپٹن (ر) شعیب نے بتایا کہ یہ قانون اگست 2016 میں پاس پوا تھا اور اکتوبر میں اس پر شکایات آنی شروع ہوگئیں تھیں۔ اس قانون کا نام ‘سائبر کرائم کی روک تھام’ہے۔

ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس کا تیسرا فیز شروع نہیں ہوسکا تھا لیکن گزشتہ حکومت نے جانے سے پہلے ہمیں بجٹ دیا جس کے بعد ہم نے 114 افراد کی ایک ٹیم بنائی اور کام شروع کیا لیکن پورے ملک کے لیے یہ ٹیم ناکافی تھی۔ اب 2018 میں ہم نے مزید 416 افراد رکھنا شروع کیے ہیں جس میں سے بڑی تعداد تحقیقات کاروں کی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے سے بھی لوگ لیے ہیں لیکن وہ ڈیجیٹل انکوئری نہیں کر سکتے۔ ہم نے مزید سینٹرز بھی کھول رہے ہیں۔ جیسے سکھر، ملتان ، حیدرآباد وغیرہ میں دس نئے سینٹرز کھولے ہیں۔

جرائم کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ سب زیادہ شکایات خواتین کی آرہی ہیں۔ جن میں ہراساں کرنے کی کیسز زیادہ ہیں۔ اس کے بعد دھوکہ دہائی کے کیسز ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم کی ایک شق کہتی ہے کہ کوئی بھی سائبر اسٹیٹ میں پاکستان اور پاکستانی عوام کے مخالف بات کرتے گا وہ سب سائبر کرائم میں آتا ہے۔ پاکستان نے ابھی تک کسی ملک سے اس بارے میں معلومات کے تبادلے کا معاہدہ نہیں کیا اس وجہ سے باہر کے کیسز ڈیلے ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہر چیز سائبر کرائم میں نہیں آتی۔ اگر کوئی صرف کمنٹ کرتا ہے وہ ایک الگ بات ہے، جسے کوئی سیاست دانوں کے خلاف بات کرتا ہے تو یہ کرائم میں نہیں آتی۔

کیس رپورٹ کرانے کے طریقےکار کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ای میل، پوسٹ اور ٹیلی فون کے ذریعے شکایات درج کی جاتی ہیں جب کے کوئی خود بھی آکر شکایت سرج کرا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب اس سسٹم کو آن لائن بنا رہے ہیں لیکن ابھی یہ سسٹم صرف اسلام آباد میں کام کررہا ہے باقی کے لیے اسٹاف کی کمی ہے لیکن اس کے لیے نئی بھرتیاں کی جارہی ہیں اور یہ نیٹ ورک پورے پاکستان میں کام کرے گا۔

سائبر کرائم کے سربراہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ فیس بک اور باقی ویب سائٹس پاکستان آجایئں لیکن ابھی تک انہوں نے ایسا کوئی پلان نہیں دیا۔


متعلقہ خبریں