پلوامہ حملے کا الزام پاکستان کو نہیں دیا جا سکتا، فاروق عبداللہ

مسئلہ کشمیر:امریکہ سے مدد مانگنا خوشی کا باعث ہے،فاروق عبداللہ

فائل: فوٹو


اسلام آباد: مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر بندوق سے نہیں مذاکرات سے حل ہو گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پلوامہ حملے کا الزام صرف پاکستان کو نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی کشمیری جدوجہد میں شامل ہیں۔

وادی چنار کے ’کٹھ پتلی‘ وزیراعلیٰ کہلائے جانے والے فاروق عبداللہ نے بھارت کے ایک نجی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کے مارے جانے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ  بھارت کے پاس کشمیرکے حوالے سے متعدد رپورٹس موجود ہیں مگر انہیں کبھی دن کی روشنی میں نہیں دیکھا گیا۔

فاروق عبداللہ نے پلوامہ میں ہونے والے خود کش حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں روز یہی کچھ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں جنگجوؤں اوربھارتی فوج میں جنگ ہورہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب تک آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ڈھونڈا جائے گا اس وقت تک یہ جنگ ختم نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بندوق اور فوج سے مسئلہ کشمیرحل نہیں ہو گا بلکہ مذاکرات سے حل ہوگا۔

دہلی پہ برسراقتدار رہنے والی حکومتوں کو سخت نکتہ چینی کا نشانہ بناتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ کبھی بھارتی پارلیمنٹ میں اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا کہ کہاں پر غلطی ہے؟ ان کا استفسار تھا کہ جب بھارت اپنے ہی  لوگوں سے بات نہیں کرے گا تو پھر کس سے بات کرے گا؟

انتہاپسندانہ سوچ کے حامل بھارتی میڈیا کی خاتون رپورٹر نے جب ’بھارت نواز‘ گردانے جانے والے فاروق عبداللہ سے پوچھا کہ کیا پلوامہ میں بھارتی فوجیوں پرحملہ کرنے والے جنگجو کو پاکستان کی پشت پناہی حاصل نہیں تھی؟ تو وہ پھـٹ پـڑے اور انہوں نے انتہائی غصے میں الٹا سوال کیا کہ کیا تم نے کبھی کشمیر گئی ہو؟ کیا تم نے کبھی کشمیریوں سے بات کی ہے؟

مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ نے ٹی وی رپورٹر کے سوال کا جواب دینے کے بجائے  استفسار کیا کہ  یہ جوان لڑکے کیوں لڑ رہے ہیں؟ ان کا دعویٰ تھا کہ تم نے ان سے کبھی بات نہیں کی مگر میں نے ان سے بات کی ہے۔

صحافتی اقدار کو بالائے طاق رکھ کراپنا سوچا سمجھا جواب فاروق عبداللہ کے منہ میں ڈالنے کی کوشش ناکام ہوتی دیکھ کر عصبیت اور بغض سے بھری خاتون صحافی نے اچانک سوال کیا کہ کیا آپ واپس پاکستان جانا چاہتے ہیں؟ تو سابق وزیراعلیٰ سخت طیش میں آگئے اور انہوں نے کہا کہ میں کبھی پاکستان واپس جانا نہیں چاہتا ہوں۔

فاروق عبداللہ نے بھارتی نجی ٹی وی کی خاتون رپورٹر کے متعلق کہا کہ تم پاکستان جانا چاہتی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ تمھارا سوال ہی غلط ہے اور پھر غصے بھرے لہجے میں جواب دیا کہ میں تمھاری اس فضول بکواس کا جواب دینا نہیں چاہتا ہوں۔

دسمبر 2018 میں بھی جموں و کشمیر نیشنل کا نفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کشمیر کے خونیں واقعات پر کہا تھا کہ پلوامہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں سے انسانیت شرمسار ہوئی ہے اور بدقسمتی سے سنگ دل فورسز نے عام شہریوں پر بےدریغ گولیاں برسا کر انہیں زندگی سے محروم کر دیا  ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ پلوامہ واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت بھارتی فورسز کو طاقت کے بے تحاشہ استعمال کرنے سے گریز کی ہدایت کرے اور عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کویقینی بنائے۔

فاروق عبداللہ کا مؤقف تھا کہ کشمیر موت کے میدان میں تبدیل ہو گیا ہے جو کسی بھی صورت اہل کشمیر کو قابل قبول نہیں ہے۔

پاکستان کے دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے پلوامہ میں ہونے والے حملے پر کہا ہے کہ بھارت نے کوئی غلطی کی تو ہماری افواج چوکس ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ پلوامہ حلمے کے بعد بھارتی میڈیا نے بھارت میں جس قسم کا ماحول بنایا ہے اس میں ہمیں آج رات ہی فوجوں کو ہائی الرٹ کردینا چاہیے۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ دو سال کے دوران بھارتی افواج نے جو ظلم دھایا ہے تو کیا اس پر کشمیری ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالیں گے؟

جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے واضح کیا کہ اگر پاکستان نے یہ کرنا ہوتا تو یہ کس طرح ممکن ہے کیونکہ ایک طرف افغانستان کا مسئلہ حل ہونے جارہا ہے اوردوسری طرف سعودی ولی عہد پاکستان میں آرہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت نازک حالات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی فوج  پر حملہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ بھارت کوچاہئے کہ اس واقعہ کی تحقیقات کرائے اورپاکستان کو اس میں شامل کرے۔


متعلقہ خبریں