جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کی پاکستان آمد سے معذرت پر سیاست


اسلام آباد: بھارت سے تعلق رکھنے والے ممتاز شاعر جاوید اختر اوران کی اہلیہ و اداکارہ شبانہ اعظمی نے پلوامہ واقع کو بنیاد بنا کر پاکستان آنے کا اپنا طے شدہ پروگرام منسوخ کیا تو بھارتی ذرائع ابلاغ نے اسے شہہ سرخیوں میں جگہ دی۔ مودی سرکار نے اس کو جواز بنا کر سیاست اور بھارتی میڈیا نے انتہائی منفی و مکروہ تجزیوں و تبصروں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی پروپگنڈے کا سرکاری اور نجی حیثیتوں میں دلیل اور منطق کے ساتھ جواب دیا گیا بلکہ سرکاری سطح پر بلاجواز جوابات دینے سے گریز کا راستہ اپنایا گیا تو ملک کی اپوزیشن جاعتوں نے اس طرز عمل کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔

بھارت کی مودی سرکار سمیت چونکہ بھارتیوں کے پاس لگائے جانے والے الزامات کے ٹھوس ثبوت و شواہد موجود نہیں ہیں اس لیے وہ اخلاقیات کی تمام حدود کو پھلانگ کر محض نریندر مودی کی طرح ’بڑکیں‘ مار رہے ہیں۔

بھارت کی جانب سے سب سے زیادہ زہر ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ’اگلا‘ جا رہا ہے جس کا واحد مقصد مبصرین کے نزدیک انتہاپسند ہندوؤں کے جذبات بھڑکا کر آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کی جیت کو یقینی بنانا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت کی جانب سے نہ صرف پاکستان پر’واہیات‘ الفاظ کی گولہ باری کی جارہی ہے بلکہ اپنے ہی ملک میں آباد مسلمانوں کو بھی تشدد اور ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔

غیر جانبدار مبصرین پہلے ہی اس بات کا خدشہ ظاہرکررہے تھے کہ مودی سرکاراپنی سیاسی کامیابی کے لیے نہ صرف پاکستان کے ساتھ چھیڑچھاڑ کا آغاز کرسکتی ہے بلکہ اندرون ملک فسادات کا راستہ بھی ہموار کرسکتی ہے۔

دفاعی مبصرین کے مطابق چونکہ پاک فوج ہر طرح کی جارحیت کا بھرپور طریقے سے منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ مودی سرکار اندرون ملک مسلمانوں اور سکھوں سمیت دیگر اقلیتوٓں کو مظالم کا نشانہ بنائے جانے کی ’غیر اعلانیہ‘ اجازت دے گی تاکہ لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکا کر ووٹوں کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔

دلچسپ امر ہے کہ پاکستان کا میڈیا، شعرا، قلمکار، کہانی کاراور ادیب خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بھارت میں رہنے والے اقلیتی مسلمانوں کو کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کے پاکستان نہ آنے میں کیا مصلحت کارفرما ہے؟ اس لیے وہ زیادہ سخت اور شدید ردعمل سے گریزاں ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ بھارتی سرکار نے جو وقتی ابال پیدا کیا ہے وہ اپنی موت آپ مرجائے گا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ آصف نے بھارت کے ممتاز اردو شاعر، نغمہ نگار اور کہانی کار جاوید اختر کے ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کے صاحب حیثیت اور متمول مسلمان شہری اپنی حیثیت کے تحفظ کے لیے اپنی شناخت پر معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے جاوید اختر کا اپنی اہلیہ اور معروف اداکارہ شبانہ اعظمی کے ہمراہ کراچی آرٹس کونسل کی دعوت پر اپنا دورہ منسوخ کرنے کے حوالے سے ٹوئٹ پر جواب میں کہا ہے  کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں روزانہ ہونے والے سنگین بھارتی مظالم کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کو دیکھ کر بھی ان کا ضمیر کوئی حرکت نہیں کرتا ہے۔

پی ایم ایل (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ محمد آصف نے یاد دلایا کہ صرف گزشتہ سال مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی مظالم کا نشانہ بن کر 355 کشمیریوں نے اپنی زندگی کی بازی ہاری تھی۔

ہم نیوز کے مطابق معروف بھارتی شاعر کیفی اعظمی کی یاد میں 23 اور 24 فروری کو کراچی آرٹس کونسل میں ادبی نشست رکھی گئی تھی۔ منعقدہ تقریب کے خاص مہمان کیفی اعظمی کی صاحبزادی اداکارہ شبانہ اعظمی اور ان کے خاوند جاوید اختر تھے۔

معروف شاعر جاوید اختر کیفی اعظمی کے داماد اور ممتاز شاعر جان نثار اختر کے صاحبزادے ہیں۔ شبانہ اعطمی بھارتی فلم انڈسٹری کا ایک نمایاں نام ہیں۔

فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی یہ دونوں شخصیات تسلسل کے ساتھ پاکستان کا ماضی میں دورہ کرتی رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارت سے یہ اطلاعات بھی آئی تھیں کہ شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کو ممبئی میں گھر ڈھونڈنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔

اسی صورتحال کی طرف ’اشارہ‘ کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز صحافی اور ایک معروف انگریزی اخبار کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ان کا نہ آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ انہیں ممبئی میں کرائے کے فلیٹ میں بھی رہنا ہے۔

بھارت سے تسلسل کے ساتھ یہ اطلاعات ملتی ہیں کہ مسلمان فنکاروں سمیت دیگرشعبہ ہائے زندگی سے وابستہ مسلمانوں  کو مکانات و فلیٹس کے حصول میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پـڑتا ہے اورمالک مکان انہیں کرائے پہ گھر دینے پر رضامند نہیں ہوتے ہیں۔

امریکہ کے نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ کے مطابق کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ جمعہ کی صبح سے ہی جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کی سیکرٹری کی جانب سے کالز اور پیغامات وصول ہونا شروع ہوگئے تھے جس میں ان سے یہ مشورہ بھی مانگا گیا کہ ان حالات میں کیا کیا جانا چائیے؟

وی او اے سے بات کرتے ہوئے احمد شاہ نے بتایا کہ ان کا مہمانان  کو کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں  ہے اور ان کا یادگار استقبال کرنے کی تمام تر تیاریاں بھی مکمل ہو چکی ہیں لیکن یہاں سے بھارت واپسی پر شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کو مسائل کا سامنا ہو سکتا تھا اس لیے ان کے نہ آنے کا فیصلہ درست ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احمد شاہ کا کہنا تھا کہ کیفی اعظمی کی یاد میں ہونے والی اس ادبی نشست کے لیے شبانہ اعظمی بہت خوش تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں کیفی اعظمی کا ایک البم لانچ کرنے کا بھی ارادہ رکھتی تھیں۔

کراچی آرٹس کونسل میں منعقد ہونے والی تقریب میں نامور شاعر افتخار عارف، کشور ناہید اور فیض احمد فیض کے اہل خانہ بھی شرکت کر رہے تھے۔

احمد شاہ کے مطابق ماضی میں بھی ایسے حالات کا سامنا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے حالات کا رونما ہونا امن کے خلاف تو سازش ہے ہی لیکن آرٹ اور کلچر سے دشمنی بھی ہے کیونکہ آرٹ اور کلچر بہترین ڈپلومیسی کا کردار ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ پروگرام ملتوی کیا گیا ہے منسوخ نہیں کیا گیا ہے اور حالات سازگار ہونے پر جولائی میں بھی یہ نشست رکھی جا سکتی ہے۔

ممتاز ڈرامہ نگار حسینہ معین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ میرے لیے یہ افسوس ناک واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ  دونوں بھارتی شہری ہیں تو یقیناً ان کا یہاں آنا اور پھر واپس جا کر نتائج کا سامنا کرنا ان کے لیے مسائل پیدا کر سکتا تھا تو ایسے میں انسان ڈر کر یہی سوچتا ہے کہ نہ جانا ہی بہتر ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت میں اپنے تجربے کی بنیاد پر انہوں نے کہا کہ جب بھارتی فلم ’حنا‘ لکھی تو اس کی ریلیز کے وقت بابری مسجد کا واقعہ رونما ہوا جس پر انھوں نے فلمساز رندھیر کپور کو منع کیا کہ فلم کے کریڈٹ پر ان کا نام نہ دیا جائے کیونکہ اس سے ان کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوں گی اور انہیں بھی اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

حسینہ معین نے بتایا کہ رندھیر کپور نے ان کی بات تسلیم کرتے ہوئے ٹائیٹل پر سے ان کا نام ہٹا دیا تھا۔

معروف ڈرامہ رائٹر حسینہ معین نے کہا کہ یقیناً شبانہ اعظمی اور جاوید اختر نے نہ آنے کا فیصلہ بھی ان ہی حالات کی مجبوری میں کیا ہو گا۔

چند ماہ قبل جب وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری منعقد ہونے والی تھی تو اس وقت بھارت کے سابق کرکٹرز سنیل گواسکر، کپیل دیو اور نوجوت سنگھ سدھو کو مدعو کیا گیا تھا جو کرکٹ کے حوالے سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔

اس وقت سنیل گواسکر نے اپنی مصروفیات کی بنیاد پرپاکستان آنے سے معذرت کرلی تھی جب کہ کپیل دیو نے  پہلے کہا کہ وہ دعوت ملنے پر پاکستان ضرور جائیں گے مگرجب دعوت ملی تو انکارکردیا۔ اس وقت بھی ذرائع ابلاغ میں کہا گیا کہ وہ بھارتی انتہاپسند ہندؤں کے دباؤ کی وجہ سے گریزاں ہیں البتہ کانگریس سے تعلق رکھنے والے بھارتی پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو کشمیری شال کا تحفہ لے کر پاکستان پہنچے۔

بھارت کے سابق کرکٹر کا واہگہ بارڈر پر نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور تقریب حلف برداری میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں گلے بھی لگایا۔

’سدھو پاجی‘ کے نام سے مشہور نوجوت سنگھ سدھو نے اسی دوران کرتارپور کی بات کی تو چیف آف آرمی اسٹاف اور حکومت کی جانب سے نہایت مثبت جواب دیا گیا جس پر وہ نہایت خوش خوش بھارت روانہ ہوئے جہاں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے ان کے سر کی بولی لگادی گئی۔

بھارتی پنجاب کے وزیرنوجوت سنگھ سدھوکوآج بھارت میں سیکیورٹی کے حوالے سے خاصا محتاط رہنا پڑتا ہے اوراحتیاط برتنا ہوتی ہے لیکن تمام تر خطرات کے باوجود وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے ملنے والی محبت اور اپنائیت کے ’گن‘ گاتے دکھائی دیتے ہیں۔

نوجوت سنگھ سدھو اس کے بعد بھی کرتارپور کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے جب کہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے تقریب میں شرکت کے لیے ملنے والے دعوت نامے کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔


متعلقہ خبریں