پلوامہ پر ’اپنوں‘ کے سوالات نے مودی سرکار کو سیخ پا کردیا


اسلام آباد: پلوامہ واقعہ پر بھارت کی تنگ نظر، متعصب اور انتہاپسندانہ سوچ کی حامل مودی سرکار سے جب بھارتی ذرائع ابلاغ سمیت عقل و دانش کے حامل افراد نے درست اور سنجیدہ سوالات پوچھنے شروع کیے تو وہ اس قدر سیخ پا اور مشتعل ہوئی کہ اس نے انتقامی کارروائیوں کا جواز بنانے کے لیے حکمران جماعت بی جے پی کے انتہاپسند دھڑے کو سوشل میڈیا اور سڑکوں پر متحرک کردیا تاکہ ایک جانب اسے سوالات پوچھنے والوں کا منہ بند کرنے کا موقع مل جائے تو دوسری جانب دیگر افراد صورتحال دیکھ کر خاموشی اختیار کرلیں اور کچھ کہنے کی جرات ہی نہ کریں۔

گزشتہ روز بھی بھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے اپنے ہی ہم وطن بے گناہ مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا اوران پر بلاوجہ تشدد کیا۔ اس تشدد کو بھارتی ذرائع ابلاغ نے وہ کوریج نہیں دی جس کی صورتحال متقاضی تھی کیونکہ بھارتی میڈیا عصبیت میں ’مودی‘ ہی ہے۔

بھارتی میڈیا کی عصبیت اس دن بھی سامنے آگئی تھی جب مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کے منہ میں ایک بھارتی خاتون صحافی اپنا جواب ’ڈالنے‘ کی بھونڈی حرکت کررہی تھی جس پر وہ بھڑک گئے تھے اور بھارت نواز ہونے کے باوجود یہ حقیقت ان کے منہ سے پھسل گئی تھی کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک یہاں کے مقامی نوجوان ہی چلارہے ہیں۔

فاروق عبداللہ نے صاف کہہ دیا تھا کہ پلوامہ حملے کا الزام پاکستان پر عائد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق مودی سرکار کا ایجنڈا ہی یہ ہے کہ امن و سکون اور شانتی کے حامی افراد کو اس قدر ڈرا دھمکا دیا جائے وہ خاموشی اختیار کرلیں تاکہ فسادات کی آڑ میں سے آئندہ انتخاب میں کامیابی مل جائے۔

پاک بھارت تعلقات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاریقین رکھتے ہیں کہ امن کے حامی جاوید اختر اور شبانہ اعظمی نے بھی اپنے شیڈول دورہ پاکستان سے اسی لیے انکار کیا کہ واپسی پر انہیں سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ المعروف ’سدھو پاجی‘ نے پلوامہ واقعہ پر مودی سرکار کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ جب کوئی سیاستدان جاتا ہے تو پورا شہرجام ہوجاتا ہے تو ہماری حفاظت کرنے والے جوانوں کی حفاظت کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا؟ ان کا سوال تھا کہ جب تین ہزار جوان جاتے ہیں تو ٹریکر کیوں نہیں چلتا ہے؟

بھارت کے انتہاپسند وزیراعظم نریندر مودی نے جب گزشتہ دنوں مقبوضہ وادی کشمیر کا دورہ کیا تھا تو ہر طرف ہو کا عالم تھا اورسیکیورٹی کے نام پر کسی کو بھی گھروں کے دروازے تک کھولنےکی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے اسی بات کو بنیاد بنا کر گزشتہ دنوں سوال کیا تھا کہ جب مرکزی حکومت اپنے لوگوں سے بات نہیں کرے گی تو پھر کس سے کرے گی؟

بھارتی پنجاب کے وزیر اور کانگریس سے تعلق رکھنے والے سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو کا اہم سوال یہ بھی تھا کہ فوجی جوانوں کو صبح سویرے تین بجے بذریعہ ہوائی جہاز کیوں نہیں لے جایا گیا؟

کرتارپور راہداری کے مستقبل کے حوالے سے اظہار تشویش کرتے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو کا کہنا تھا کہ سارا دیش ایک ہو کر لڑ رہا ہے تو کیا تین چار لوگوں کی وجہ سے کرتار پور پر سوالیہ نشان لگےگا؟

کانگریسی رہنما نے کہا کہ نوجوت سنگھ سدھو بابا نانک کے چرنوں کی دھول ہے اور ان کی فلاسفی پوری دنیا جانتی ہے۔

انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ بابا نانک کی فلاسفی کے لیے نوجوت سنگھ سدھو خم ٹھونک کر کھڑا ہوگا اور یہ بات بھی طے ہے کہ بابا کی سوچ و فکر کو کوئ ایک انچ بھی نیچا نہیں دکھا سکتا ہے۔

سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے یہ استفسار بھی کیا کہ کیا وزرائے اعظم کے کیے گئے اقدامات پر سوالیہ نشان لگے گا؟

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق نوجوت سنگھ سدھو نے پنجاب اسمبلی کے باہر ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں پلوامہ حملے پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو تین یا چار کے قصور کو پوری قوم یا ایک ملک کا قصور نہیں گردانا جا سکتا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق سوشل میڈیا پر لوگوں نے اس بیان کو پاکستان کی طرفداری سے تعبیر کرتے ہوئے ان کے خلاف باقاعدہ محاذ بنا لیا۔

نوجوت سنگھ سدھو جو ’کپل شرما شو‘ میں شریک میزبان کی حیثیت سے شامل ہوتے ہیں کو شو سے نکالنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس ضمن میں خاص بات یہ ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے پروردہ انتہا پسند ہندو زیادہ متحرک نظرآئے جس کی وجہ سے سخت دباؤ کے بعد شو کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ سدھو کو شو سے علیحدہ کردیا جائے۔

سوشل میڈیا پر بائیکاٹ سدھو کی باقاعدہ مہم چلائی گئی جس میں کہا گیا کہ جب تک سدھو کو کپل شرما شو سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک شو کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے گا۔

بھارت کے زوم ٹی وی کے مطابق سونی ٹی وی کی انتظامیہ نے فوری طور پر شو کے پروڈکشن ہاؤس کو احکامات دیے ہیں کہ سدھو کو شو سے علیحدہ کردیا جائے۔

زوم ٹی وی نے ذرائع سے خبر دی ہے کہ عین ممکن ہے کہ پروگرام کی آئندہ ریکارڈنگ میں ارچنا کو شریک میزبان کے طور پر کپل شرما شو میں شامل کیا جائے۔

دلچسپ امر ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو نے جو سنجیدہ سوالات اٹھائے وہی سوالات بھارتی ذرائع ابلاغ میں بھی پوچھے جارہے ہیں بلکہ ایک بھارتی اخبار کے مطابق تو خود نشانہ بننے والے قافلے میں شامل جوان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ وہی بات کہی ہے جو سابق بھارتی کرکٹر نے کہی اور جس پر خلاف سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان کی کپل شرما شو سے چھٹی بھی کرادی گئی۔

نوجوت سنگھ سدھو کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے شروع کی گئی مہم وقت گزرنے کے ساتھ مزید تیز ہوتی جارہی ہے اور سوشل میڈیا پر حکمران جماعت بی جے پی کے وزرا اور عہدیداران بھی اسے بڑھاوا دے رہے ہیں اور جذباتی نوجوانوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مشتعل کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں جو ان کا سیاسی ایجنڈا بھی ہے۔

پاکستان کی جانب سے ہمیشہ کی طرح سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔

بھارتی اخبار’ دی کوئنٹ‘ (The Quint) کے مطابق سی آر پی ایف کے ایک افسر نے باقاعدہ اپنے ہیڈ کوارٹر کو درخواست بھیجی تھی کہ دو ہزار 500 جوانوں کو منتقل کرنا کافی خطرناک ہو گا تو بہتر ہے کہ ان کی منتقلی بذریعہ ہوائی جہاز کر دی جائے مگر اس کی بھیجی جانے والی درخواست کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔

اخبار کے مطابق سی آر پی ایف ہیڈ کوارٹر نے ملنے والی درخواست وفاقی وزارت داخلہ کو بھیج دی تھی مگر اس کا کوئی جواب نہیں آیا تھا۔

دی کوئنٹ کے مطابق جس قافلے کو نشانہ بنایا گیا اس میں شامل ایک جوان نے اپنا نام طاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ بتایا کہ مقبوضہ وادی میں دوران سفر جوانوں کے بھی شدید تحفظات تھے اور وہ بخوبی واقف تھے کہ یہ سفر کس قدر پرخطر ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو انہیں جہاز سے منتقل کیا گیا اورنہ ہی سفر کےلیے بلٹ پروف  گاڑیاں فراہم کی گئیں۔

جس قافلے کو پلوامہ میں نشانہ بنایا گیا وہ 78 گاڑیوں پر مشتمل تھا۔

بھارتی اخبار ’ٹیلی گراف انڈیا‘ نے پلوامہ واقع پر مودی سرکاراور حکومتی اداروں سے استفسار کیا ہے کہ ڈھائی سو کلو گرام بارودی مواد کے ساتھ اس ہائی وے پر سفر کیونکہ اور کیسے ممکن ہوا جو پورے ملک میں سب سے زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے؟

اخبار کے مطابق جس بڑے پیمانے پر حملہ کیا گیا اس کے لیے مہینوں کی منصوبہ بندی درکار ہے تو خفیہ ادارے کیا کررہے تھے؟ اور کیا یہ کافی تھا کہ معمول کا ایک الرٹ جاری کردیا جائے جو نظرانداز ہو گیا؟

ٹیلیگراف نے استفسار کیا ہے کہ جب سویلین کی تمام گاڑیوں کی تلاشی لی جاتی ہے اوران کی سخت چیکنگ کا نظام موجود ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک کم عمر نوجوان جو بھاری بارودی مواد کے ساتھ سفر کررہا ہواسے مشتبہ قرار دیے بغیر 78 گاڑیوں کے قریب جانے کا موقع مل جائے؟

اخبار کے مطابق حملہ آور کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ قافلے میں کون سی جگہ کمزور ہے جس کو وہ نشانہ بنا سکتا ہے؟ اوریہ کہ حملے کے لیے وقت کون سا مناسب ہوگا؟ یہ بھی اسے معلوم تھا مگر ہماری سیکیورٹی ایجنسیز کے علم میں نہیں تھا۔

ٹیلیگراف انڈیا کے مطابق خراب موسم کو محض الزام دینا کہ اس کی وجہ سے تمام گاڑیاں یکجا ہوگئی تھیں کیا اس بات کا جواز فراہم کرتا ہے کہ 2500 جوانوں کو ایک ساتھ اکھٹا کرکے ہائی رسک ٹارگٹ میں تبدیل کردیا جائے؟


متعلقہ خبریں