روس اور برطانیہ کے درمیان سرد مہری کی برف پگھل گئی؟


اسلام آباد: روس اوربرطانیہ کے درمیان تعلقات کی سرد مہری جرمنی کی یخ بستہ ہواؤں میں اس وقت تحلیل ہوگئی جب میونخ میں دونوں ممالک کے جونیئر وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات ہوئی۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان نئے سفارتی تعلقات کا قیام عالمی امن کے حوالے سے خوش آئند ہے تاہم فی الوقت یہ کہنا ازحد مشکل ہے کہ سردمہری کی برف کس حد تک پگھلی ہے؟

سیاسی مبصرین کے مطابق اس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا کیونکہ عالمی سطح پر صورتحال خاصی پیچیدہ ہے۔

برطانیہ کے شہر لندن کو ارب پتی روسیوں کا دوسرا گھر بھی کہا جاتا ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی نے برطانیہ کی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں برطانیہ کے یورپی وزیر ایلین ڈینکن اور روس کے پہلے ڈپٹی وزیر خارجہ ولادی میر ٹیٹو کے درمیان سائیڈ لائن پر ملاقات ہوئی ہے۔

سابق روسی جاسوس سرگئی اسکرپال پر گزشتہ سال مئی میں روس کے تیار کردہ اعصاب شل کر دینے والے زہر ‘نووی چوک’ سے حملہ ہوا تھا۔ اس حملے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی عروج پر پہنچ گئی تھی۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق برطانوی مندوب نے ملاقات میں زور دیا کہ دونوں ممالک کے مابین حائل خلیج وسیع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس زیادہ ذمہ داری کا رویہ اپنائے۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق برطانوی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے روس کے ساتھ تعلقات کے لیے مختلف پہلوؤں پر دروازے کھولے ہیں لیکن اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

برطانوی وزارت خارجہ کے حوالے سے خبررساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ کے وزیر نے اس یقین کا اظہا رکیا کہ ماسکو عالمی نظام کے وضع کردہ قوانین کی پاسداری کرے گا۔

روس کی خبررساں ایجنسی کے مطابق  جو کچھ مذاکرات کے متعلق لندن سے کہا گیا ہے وہ  زبان اور مواد ملاقات سے متصادم ہے۔

یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے روس پرمذاکرات کے لیے زور دیا گیا ہے۔

برطانوی وزیر نے ملاقات کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر پر اس حوالے سے اپنی تصویر بھی شیئر کی ہے۔

برطانیہ نے اس سے قبل سابق روسی ایجنٹ کو زہر دینے سے متعلق واقع میں روس کے صدرولادی میر پیوٹن کو قصوروار قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس مسئلے کو اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔


متعلقہ خبریں