سعودی ولی عہد کے دورے جیسی گرم جوشی پہلے کبھی نہیں دیکھی، نجم الدین شیخ



اسلام آباد: سابق سفارتکار نجم الدین شیخ کا کہنا ہے کہ جس قسم کی گرمجوشی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے استقبال کے لیے دیکھی گئی ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس قسم کے معاہدے آج ہوئے ہیں وہ پاک سعودی تعلقات میں بہت اہم ہیں۔

سابق سفارتکار کا کہنا تھا کہ شہزادہ محمد بن سلمان 2030 کا جو وژن سامنے لائے ہیں، پاکستان کو بھی اسی قسم کے وژن کی ضرورت ہے۔ جس قسم کی اصلاحات سعودی عرب میں ہو رہی ہیں، پاکستان اس سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

دہشت گردی اور انتہاپسندی کے حوالے سے عامر ضیاء کے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی مذہبی لحاظ سے بہت عزت ہے، اگر وہ اعتدال اور جدت کا رستہ اختیار کریں گے تو ہمارے لیے بھی انتہا پسندی سے چھٹکارا پانا آسان ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے لیے اسلامی ممالک کا جو اتحاد وجود میں آیا ہے اس کا مقصد انٹیلی جنس شیئرنگ ہے۔ ابھی پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی پر پوری طرح قابو نہیں پا سکا، اس معاملے میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

نجم الدین شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاحت کے بہت مواقع موجود ہیں، کرتار پور بارڈر کھول کر پاکستان میں مذہبی سیاحت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

پروگرام میں شریک ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف کا کہنا تھا کہ ماضی میں شاہ عبداللہ کا دورہ بھی تاریخی نوعیت کا تھا لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ اس سے بھی زیادہ گرمجوشی پر مبنی تھا۔ موجودہ حکومت کے ساتھ صرف چھ ماہ میں بیس ارب ڈالر کے معاہدے ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کا تیل پر انحصار کم ہوتا جا رہا ہے، اس لیے سعودی عرب اب چین کی طرف رخ کر رہا ہے، ان کی مشرق کی طرف دیکھنے کی پالیسی دانشمندی پر مبنی ہے۔

شاہد لطیف نے کہا کہ ہم دہشت گردی کا عملی مظہر تو ختم کر چکے ہیں لیکن اس کا نظریاتی پہلو ابھی موجود ہے، اس سلسلے میں سعودی عرب ہمارے کام آ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں پاکستان نے سفارتی محاذ پر کوئی تحرک نہیں دکھایا جس کی وجہ سے ہم دنیا میں تنہا ہوتے گئے۔ موجودہ حکومت کی آمد کے بعد بھارت سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔

نامور ماہر معاشیات عابد سلہری کے مطابق 2010 کے بعد سعودی عرب اور پاکستان کی تجارت کا حجم کم ہوتا رہا ہے۔ 2015 میں سعودی عرب میں مقیم بیرون ملک پاکستانیوں نے 5.6 ارب ڈالر بھیجے تھے جو کم ہو کر 4.8 ارب ڈالر تک آ چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان پہلی بار اداراتی سطح پر تعلق بن رہا ہے، اس سے پہلے صرف سربراہوں کے ذاتی تعلق ہوا کرتے تھے۔

عابد سلہری کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت وژن 2030 کے تحت تیل پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتی ہے۔ وہ خدمات کے شعبے پر انحصار بڑھانا چاہتی ہے۔ پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔

گوادر میں آئل ریفائنری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس موجود پانچ ریفائنریز بہت پرانی ہیں۔ ان میں تیس سے چالیس فیصد فرنس آئل نکلتا ہے جبکہ جدید ریفائنری میں یہ صرف پانچ فیصد ہونا چاہیے۔ سعودی عرب کی مجوزہ آئل ریفائنری کی ایک سال تک فزیبلٹی سٹڈی ہو گی اس کے بعد اس کی حقیقی لاگت کا پتا چلے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ  قطر اور متحدہ عرب امارات بھی پاکستان میں آئل ریفائنریز لگانا چاہتے ہیں۔

عابد سلہری نے کہا کہ بھارت گوادر کو چاہ بہار کی حریف بندرگاہ سمجھتا ہے، سعودی عرب کی جانب سے گوادر میں سرمایہ کاری پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔


متعلقہ خبریں