سی پیک میں قرضہ اور سعودی پیکج میں سرمایہ کاری زیادہ ہے، عبدالرزاق داود



اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیربرائے تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری سی پیک سے مختلف ہے، سی پیک میں قرضہ زیادہ اور سعودی عرب کے پیکج میں سرمایہ کاری زیادہ ہے۔

پروگرام ندیم ملک لائیومیں میزبان ندیم ملک سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالرزاق داود کا کہنا تھا کہ سی پیک میں قرضہ زیادہ تھا جبکہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری زیادہ ہے۔ اس میں حکومت کا کام سرمایہ کاروں کوتحفظ دینا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے منصوبوں سے توانائی کے شعبے میں بحران ختم ہوا، ہمارا انفراسٹرکچر بہترہوا، ابھی ہم اسے زراعت اور انڈسٹری کی طرف جارہے ہیں۔ درآمدات میں کمی لانا حکومت کی ترجیح ہے۔

عبدالرزاق داود نے کہا کہ پاکستان اس وقت پٹرولیم مصنوعات کی دو ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات کرتا ہے، ریفائنری لگنے سے درآمدات سے یہ دو ارب نکل جائیں گے۔

مشیر برائے تجارت نے کہا کہ پاکستان کی ضروریات پوری ہوں گی اوردنیا کو برآمدات کریں گے، تین سے پانچ سالوں میں یہ ریفائنری لگ سکتی ہے، پاکستان میں چیزوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا اس لیے سپریم کونسل بنائی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اس منصوبے کو عملی جامعہ نہ پہنا سکی تو یہ پاکستان کی بہت بڑی ناکامی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت میں آتے ہی آئی ایم ایف کے پاس سخت شرائط تھی۔ آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے، معاشی اصلاحات کرنا ملک کی ضرورت ہے، اگر نہیں کریں گے تو مزید نقصان میں جاتے چلے جائیں گے۔

عبدالزاق داؤد نے کہا کہ ملک میں ٹیکس اور اسمگلنگ کے حوالے سے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے رجوع کریں اور ٹیرف اسٹرکچرکو قابل قبول بنائیں، انہوں نے افغان ٹرانزٹ معاہدے پرنظرثانی کا بھی مطالبہ کیا۔

عبدالرزاق داود نے کہا کہ حویلی بہادرشاہ، بلوکی پاورپلانٹس کے لیے سعودی عرب سمیت کئی ممالک نے دلچسپی ظاہرکی ہے۔ ایکوا پاور پاکستان میں دو ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنا چاہتی ہے لیکن ہم اس معاملے پر پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھی ساتھ لے کرچلنا چاہتے ہیں۔

مشیر تجارت کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان اور عمران خان کا بہت اچھا تعلق بن گیا ہے جس کا پاکستان کو بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔

کشمیرمیں جو ہورہا ہے یہ بھارتی پالیسیوں کا نیتجہ ہے، خورشید محمود قصوری

سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کا کہنا تھا کہ بھارت کے رویے پرحیران نہیں کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق پررپورٹ کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے بھارت کی پالیسیوں کا نیتجہ ہے، یہ بات صرف پاکستان نہیں بلکہ بھارت کے اندر سے کہی جارہی ہے۔

خورشید محمود قصوری نے کہا کہ پرویز مشرف دور میں مسئلہ کشمیر کا جو حل بتایا گیا تھا اور بھارت اس پر متفق ہوگیا تھا اس میں دونوں ممالک کی افواج بھی مذاکرات میں شریک تھیں۔ جنگیں بھی ہوچکی ہیں، مذاکرات کے بغیرآگے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔