نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ



اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔

محکمہ داخلہ پنجاب کے اے آئی جی لیگل ڈاکٹر قدیر میڈیکل رپورٹ لے کر عدالت پہنچے جو نواز شریف کے جناح اسپتال میں طبی معائنہ اور ٹیسٹس سے متعلق تازہ میڈیکل رپورٹ پیش کریں گے۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کی صحت خراب ہے اور یہ ایک حساس معاملہ ہے، پنجاب حکومت کے نمائندے نے گزشتہ سماعت پر حقائق چھپائے۔ کم از کم ان کی بیماری کے معاملے پر تو ایسا نہیں کرنا چائیے تھا۔

خواجہ حارث نے نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری عدالت میں سناتے ہوئے کہا کہ سال 2011 میں آر ایف اے کے دوران نواز شریف کا خون زیادہ بہہ گیا جس کی وجہ سے نواز شریف کا بائی پاس کرنا پڑا۔

سال 2018 میں اڈیالہ جیل میں نواز شریف کو دل کا مسلئہ رہا جب کہ میڈیکل رپورٹ میں اب بھی انجیو گرافی کا کہا گیا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سال 2016 میں نواز شریف کا بائی پاس کیا گیا تھا جس میں 4 گرافٹ لگائے گئے تاہم جولائی 2018 میں معمولی نوعیت کا دل کا دورہ پڑا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جنوری 2019 کو تھریم ٹیسٹ انجائنہ کی شکایت پر کیا گیا۔

خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ نواز شریف کی بیماری کا علاج جیل میں ممکن نہیں، انہیں لاحق متعدد بیماریوں سے جان کو خطرہ ہے جب کہ انجیو گرافی سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری کیا ہے اور کیا علاج تجویز کرنا ہے اور آج کل انجیو گرافی کے دوران ہی آپریٹ بھی کر دیا جاتا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ میڈیکل بورڈ نے انجیوگرافی کے نتائج کارڈیالوجسٹس سے بھی شیئر کرنے کا کہا ہے جب کہ کسی میڈیکل رپورٹ میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ 23 جنوری کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ جو رپورٹ چھپانے کا کہہ رہے ہیں وہ اب عدالتی ریکارڈ پر آ چکی ہے۔

خواجہ حارث نے مطالبہ کیا کہ اس شخص کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جس نے نواز شریف کی درخواست چھپائی۔

خواجہ حارث نے نمائندہ پنجاب پر برہمی کا اظہار کیا تو جسٹس عامر فاروق نے نمائندہ پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ان باتوں کو ذاتی نہیں لینا۔ وکلا ایسے بولا کرتے ہیں یہ ان کے کام کی نوعیت ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت پر قومی احتساب بیورو(نیب) نے گزشتہ ہفتہ اپنا جواب جمع کرا دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں نیب نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیکل گراؤنڈ پر نواز شریف کو ضمانت نہیں دی جا سکتی سابق وزیراعظم کی درخواست مسترد کی جائے۔

نیب نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ نواز شریف کی درخواست ضمانت ناقابل سماعت ہے، گرفتار مجرم نواز شریف کو دستیاب بہترین طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں وہ طبی بنیادوں پر ضمانت کے حق دار نہیں ہیں۔

نواز شریف کی سزا معطلی، عدالت نے تمام میڈیکل رپورٹس طلب کر لیں

نیب نے نواز شریف کی پہلی سزا معطلی کی درخواست واپس لینے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے جواب میں کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم کی متفرق درخواست ناقابل سماعت ہے، اس لیے خارج کی جائے۔

یاد رہے کہ  العزیزیہ ریفرنس میں قصوروار ٹھہرائے جانے کے بعد سابق وزیراعظم نے سزا معطلی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ بعد ازاں نوازشریف کی طبیعت خراب ہوگئی تو ان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں میڈیکل گراؤنڈ پر سزا معطلی درخواست دائر کی۔

نواز شریف نے دل کے عارضہ کو بنیاد بناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا معطلی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

نواز شریف کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ نواز شریف عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور ان کی تین ہارٹ سرجریز ہو چکی ہیں، ہائی کورٹ سے اپیل پر فیصلہ آنے تک سزا معطل کر کے اُنہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔


متعلقہ خبریں