قومی اسمبلی اجلاس ، آغا سراج درانی کی گرفتاری پر اپوزیشن کا احتجاج



اسلام آباد: اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کے خلاف قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔

قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اپوزیشن نے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کے خلاف  بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں۔ اپوزیشن اراکین نے اجلاس کے دوران شور شرابہ  بھی کیا۔

پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ پاکستان کے عوام سے ووٹ لے کر آنے والوں کے لیے ہمارے دل میں احترام ہے، اسپیکر کی کرسی پر چاہے کوئی بیٹھا ہو ہمارے لیے قابل احترام ہے۔

انہوں ںے کہا کہ اسپیکر کا ایک آئینی کردار ہوتا ہے جب کہ پارلیمنٹ تمام اداروں سے سپریم ہے۔ ایک منتخب ایوان کے اسپیکر کو گھسیٹ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آغا سراج درانی کسی چیز میں ملوث ہو لیکن یہ رویہ قابل قبول نہیں ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ اگر اسپیکر خود کمزور ہو گا تو اسمبلی کیسے چلے گی۔ ہم ایک دوسرے کے لیے ہی مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ جیلیں سیاستدانوں کے لیے بنی ہوئی ہیں یہاں کسی اور کا احتساب کبھی نہیں کیا گیا۔

پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ اسپیکر صاحب کیس ہوتے نہیں بنائے جاتے ہیں۔ سراج درانی پر کون سا کیس تھا ؟ اُن پر تو کیس بنایا گیا ہے۔ یہاں اسپیکر کو گھسیٹنا بھی نئے پاکستان کا کارنامہ ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ اداروں کو مضبوط اور ان کا احترام ہونا چاہیے۔ کل ایک منتخب اسپیکر کے گھر ان کی فیملی کو یرغمال بنایا گیا۔ ہم اس رویے کے خلاف ہر سطح پر احتجاج کریں گے۔

خورشید شاہ کے خطاب کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شفقت محمود کو مائیک دینے کے خلاف اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور شفقت محمود کی تقریر کے دوران اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر شور شرابا کیا۔

شفقت محمود نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ایک خودمختار ادارہ ہے۔ اگر نیب کا قانون خراب ہے تو گزشتہ دس سالوں میں کیوں قانون تبدیل نہیں کیا گیا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ نون کی حکومت رہی جب کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پیپلز پارٹی رہنما خورشید شاہ نے مل کر چیئرمین نیب کا چناؤ کیا تھا۔

انہوں ںے کہا کہ نیب وزیر اعظم سے ہدایت نہیں لیتا وہ ایک خود مختار ادارہ ہے جب کہ یہاں تو خورشید شاہ سارا غصہ ہم پر نکال رہے ہیں۔ نیب جو کارروائیاں کر رہا ہے یہ درست ہے یا نہیں، اس کا دفاع کرنا میرا کام نہیں ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ ہم سب جمہوریت کی بقاء کے لیے ایک ہیں، جمہوریت اور پارلیمنٹ بدعنوان عناصر کے لیے ڈھال نہیں بنے گی۔ اگر کسی نے احتجاج کرنا ہے تو عدالت جا کر کریں۔

اپوزیشن اراکین نے احتجاج کے دوران ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔

سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری کے خلاف عوام اور کابینہ سب احتجاج کر رہے ہیں۔ آغا سراج درانی کی گرفتاری کے بعد چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا گیا۔

راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ یہاں بات پوائنٹ اسکورنگ کی نہیں اور نہ ہی یہ ہمارا اور آپ کا مقابلہ ہے، ہمیں بتایا جائے کہ پارلیمان سے بالا تر ادارہ کون سا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کون سا طریقہ ہے ارکان اسمبلی کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جائے۔ یہاں مقدمات بنانے میں چند منٹ لگتے ہیں، آغا سراج درانی کی گرفتاری پاکستانی سیاست پر دھبہ ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے پاکستان تحریک انصاف کی رکن فہمیدہ مرزا کو بات کرنے کی اجازت دی تو اپوزیشن اراکین نے اسپیکر کی نشست کے سامنے آکر شدید احتجاج کیا۔

اپوزیشن کے شدید احتجاج کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ تک ملتوی کر دیا گیا۔

اجلاس کے آغاز پر قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ قرارداد کے مطابق پارلیمانی کمیٹی اسپیکر چیئرمین سییٹ کی مشاورت سے تشکیل دیں گے جب کہ کمیٹی قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد اور فوجی عدالتوں کی کارکردگی کا جائزہ لے گی۔

ایوان میں سی پیک سے متعلق پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کرنے کی تحریک منظور کی گئی جب کہ کشمیر سے متعلق خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

اسمبلی میں پاور اور پٹرولیم ڈویژن الگ الگ تصور کرنے کی بھی قرار داد پیش کی گئی جب کہ دونوں ڈویژن وزارت توانائی کا ہی حصہ رہیں گی۔ جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔


متعلقہ خبریں