مبینہ پولیس مقابلہ، فائرنگ کی زد میں آکر میڈیکل کی طالبہ جاں بحق



کراچی: کراچی کے علاقے انڈا موڑ پر مبینہ پولیس مقابلے کے دوران فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہونے والی لڑکی 20 سالہ نمرہ کے قتل کا مقدمہ درج نہ ہو سکا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعے کے بعد بچی کو جناح اسپتال لے جایا گیا تو وہاں ڈیوٹی پر موجود ایم ایل او نے پوسٹ مارٹم سے انکار کیا۔تاہم بعد میں پوسٹ مارٹم کرلیاگیا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے رپورٹ طلب کر لی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس قسم کے واقعات ناقابل برداشت ہیں، مجھے تفیصلی رپورٹ چاہیے کہ یہ واقعہ کس کی غفلت سے واقعہ پیش آیا۔

ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق نمرہ کو سر میں دائیں جانب سے لگنے والی گولی موت کا سبب بنی۔ سر میں لگنے والی گولی چھوٹے ہتھیار کی معلوم ہوتی ہے۔

پولیس حکام کے مطابق مارا جانے والا ڈاکو ریاض اور اس کے زخمی ساتھی کا اسلحہ فارنزک معائنہ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس نے ڈاکوؤں کے قبضے سے اسلحہ اور چھینے گئے موبائل فونز بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

پولیس نے مارے جانے والے اور زخمی ڈاکو کے کریمنل ریکارڈ کی تلاش شروع کر دی ہے۔

ذرائع کے مطابق ملزمان شہریوں سے لوٹ مار میں مصروف تھے کہ پولیس کو دیکھ کر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم پولیس نے ملزمان کا تعاقب کیا اور پولیس فائرنگ سے ایک ڈاکو مارا گیا اور زخمی ہوا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ میڈیکو لیگل (ایم ایل) رپورٹ کے مطابق لڑکی کو چھوٹے ہتھار کی گولی لگی ہے جو سر کی ہڈی کو توڑتے ہوئے نکل گئی۔ پوسٹ مارٹم میں گولی کا سکہ نہیں ملا ہے۔

پولیس ترجمان کے نے بتایا ہے کہ قتل پر بننے والی تحقیقاتی کمیٹی نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور  نعمان صدیقی اور سمیع اللہ سومرو پر مشتمل کمیٹی نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

کمیٹی کے ارکان نے نارتھ کراچی میں انڈا موڑ پر جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور عینی شاہدین سے بیانات لیے۔

ترجمان نے بتایا کہ کمیٹی کے ارکان طالبہ نمرہ کے گھر بھی گئے، اہل خانہ سے تعزیت کی اور انصاف کی یقین دہانی کرائی۔

متوفیہ نمرہ کا تعلق پولیس کے خاندان سے ہے، مقتولہ کے مرحوم والد اور دادا بھی پولیس ملازم تھے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی کمیٹی کے ارکان نے مقتولہ نمرہ کے ماموں اور دیگر فیملی ارکان کے بیانات ریکارڈ کیے۔

کمیٹی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ تین دن میں ایڈیشنل آئی جی کراچی کے پاس جمع کرائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی میں فائرنگ، بچی سمیت تین افراد زخمی

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتولہ کے سر پر ڈھائی سینٹی میٹر کا زخم آیا ہے جب کہ مقابلہ کرنے والے اہلکاروں کے پاس ایس ایم جی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق لڑکی نے ڈکیتی کے دوران چیخیں ماری تھیں اور لڑکی کی مزاحمت پر ڈاکوؤں نے فائرنگ کی۔

پولیس مقابلے میں زخمی ہونے والا ڈاکو انتہدائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) میں زیر علاج ہے اور اس کی حالت تشویشناک ہے۔

نمرہ کی لاش جناح اسپتال پہنچنے کے بعد معاملہ تنازعہ کا شکاربھی ہوا ۔ جناح اسپتال کی لیڈی ایم ایل او نے پوسٹ مارٹم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایم ایل رپورٹ عباسی شہید اسپتال میں ہوئی، وہیں سے پوسٹ مارٹم بھی کراؤ۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ نمرہ کی موت جناح اسپتال پہنچنے کے بعد ہوئی اور اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جناح اسپتال سے جاری ہوا۔ لیڈی ایم ایل او کا پوسٹ مارٹم سے انکار سمجھ سے بالاتر ہے۔

مقتولہ نمرہ کے ماموں ذکی احمد نے جناح اسپتال کے مردہ خانے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صورتحال سے تو لگتا ہے کہ نمرہ پولیس کی گولی کا نشانہ بنی۔ ہم اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم کئی گھنٹے سے یہاں رل رہے ہیں اور پوسٹ مارٹم نہیں کیا جا رہا۔ انڈا موڑ پر فائرنگ کی اطلاع ہمیں ٹی وی کے ذریعے ملی جب کہ کئی گھنٹے سے قانونی کارروائی کے لیے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔ ارباب اقتدار اس بے حسی کا نوٹس لیں۔

ایس ایس پی سینٹرل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گولیاں دونوں جانب سے چلی ہیں اس لیے لواحقین کا پولیس پہ شک کا اظہار جائز ہے جب کہ لواحقین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ واقعہ کی شفاف تحقیقات ہوں گی۔ لڑکی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد حقائق سامنے آسکیں گے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ نمرہ کے اہلخانہ تدفین کے بعد مقدمہ درج کرائیں گے۔ واضح رہے کہ نمرہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں فائنل ائیرکی طالبہ تھی۔

گزشتہ برس 13 اگست کی رات کو بھی کراچی کے علاقے اختر کالونی میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران امل نامی دس سالہ بچی دوطرفہ فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہو گئی تھی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان لوٹ مار کے دوران پولیس کو دیکھ کر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوئے اور گولی لگنے سے بچی جاں بحق ہو گئی۔


متعلقہ خبریں