پاک بھارت کشیدگی: وزیرخارجہ کا دورہ جاپان ملتوی

فائل فوٹو


اسلام آباد: پاکستان اور بھارت کے مابین جاری حالیہ کشیدگی کے سبب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنا دورہ جاپان ملتوی کردی کردیا ہے۔

وزیرخارجہ نے 24 تا27 فروری تک جاپان کا سرکاری دورہ کرنا تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ دورے کی نئی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

جاپان کی وزارت برائے خارجہ امور نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کے ساتھ کشیدگی کے سبب دورہ ملتوی کیا ہے۔

جاپان کے ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے چار روزہ دورے کے دروان اپنے ہم منصب تارکونو سے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنا تھا جہاں سیکیورٹی کی صورتحال آئے روز بد تر ہوتی جارہی ہے۔

پاکستان کی جانب سے جاپان حکومت کو بتایا گیا ہے کہ علاقے میں جاری صورتحال سے نمٹنے کیلئے وزیرخارجہ کا دورہ فی الحال ملتوی کردیا گیا ہے۔

دوسری جانب وزیر خارجہ  شاہ محمود قریشی نے آج سابقہ خارجہ سیکریٹریز اور سفارتکاروں سے ملاقات کی ہے۔

مشاورتی اجلاس مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور بھارت کے جارحانہ عزائم کو پیش نظر رکھتے ہوئے طلب کیا گیا

وزیرخارجہ نے بتایا کہ سابقہ سیکرٹریز خارجہ اور سفارتکاروں سے مشاورت کا مقصد ان کے وسیع تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، موجودہ صورتحال میں ایک جامع اور مربوط لائحہ عمل مرتب کرنا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ مشاورت کا یہ سلسلہ آئندہ بھی تواتر کے ساتھ جاری رہے۔

یہ بھی پڑھیں

پاک بھارت صورتحال خطرناک ہے، ٹرمپ

چین کا پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کا مشورہ

یادرہے کہ 14 فروری 2019 کو کشمیر کے علاقہ پلوامہ میں بم دھماکے سے بھارت کے 44 سے زائد فوجی جاں بحق ہوگئے تھے۔ بھارت نے حملے کا الزام پاکستان پر لگایا تھا۔

بھارت کی جانب سے بے بنیاد الزامات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال انتہائی بری خطرناک ہے اور امریکی انتظامیہ اس ضمن میں دونوں ممالک سے رابطے میں ہے۔

صدر ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ کشمیر میں مظلوم لوگوں کی اموات کا سلسلہ رکنا چاہیے۔ ٹرمپ نے دونوں ممالک کو امن و سکون سے رہنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔

پلوامہ حملے کے بعد پاک بھارت تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے چین نے بھی حملے کی تحقیقات اور خطے میں امن و استحکام کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنانے کا مشورہ دیا تھا۔

چینی وزرات خارجہ نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت جاسکے کہ حملہ آور کا تعلق کالعدم تنظیم جیش محمد سے تھا۔


متعلقہ خبریں