اسلام آبادہائیکورٹ نے نواز شریف کی درخواست ضمانت مستردکردی



اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔

جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس عامر فاروق نے درخواست ضمانت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ 9 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا کہ کیس غیر معمولی نوعیت کا نہیں ہے اور نواز شریف کو علاج کی سہولیتں دستیاب ہیں۔

فیصلے کے مطابق نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی نوازشریف کے معاملے میں مخصوص حالات ثابت نہیں ہوئے ہیں۔

عدالت نے فیصلے میں شرجیل میمن کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں پر ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے۔

عدالتی فیصلے کے وقت قبل مسلم لیگ نون کے رہنما مریم اورنگزیب، طلال چوہدری، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، پرویز رشید اور کارکنان کی بڑی تعداد عدالت میں موجود تھی۔

نواز شریف کی درخواست ضمانت پر فیصلہ دن سوا 12 بجے سنایا جانا تھا تاہم کچھ تاخیر کے بعد فیصلہ ساڑھے 12 بجے سنایا گیا۔ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے 20 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت کی جانب سے نواز شریف اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے گرد سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں جب کہ پولیس کی اضافی نفری بھی تعینات ہے۔ ہائی کورٹ کے اطراف موجود عمارتوں کی چھتوں پر بھی سیکیورٹی اہلکار موجود رہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف جناح اسپتال میں اپنے بھائی نواز شریف کے ساتھ اُن کی ضمانت کا فیصلہ سنا جب کہ مسلم لیگ نون کے کارکنان نے اپنے قائد کی رہائی کے لیے بڑے پر امید تھے اور جشن کی تیاریاں کر رکھی تھی۔

نواز شریف نے چھ فروری کو سزا معطلی کی پہلی درخواست واپس لی تھی۔ جیل میں نواز شریف کی طبیعت خراب ہونے پر ان کے وکلا نے 26 جنوری کو طبی بنیادوں پر ضمانت کی نئی درخواست دائر کی۔ جسے 12 فروری کو ہونے والی سماعت میں منظور کیا گیا۔

عدالت نے 18 فروری کو نواز شریف کی سزا معطلی درخواست پر ایک بار پھر ان کی حتمی میڈیکل رپورٹ طلب کی اور 20  فروری کو میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی۔

فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

نواز شریف کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ نواز شریف عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور ان کی تین ہارٹ سرجریز ہو چکی ہیں، ہائی کورٹ سے اپیل پر فیصلہ آنے تک سزا معطل کر کے اُنہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔

احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں 24 دسمبر کو سات سال قید کی سزا، ایک ارب 50 کروڑ روپے کا جرمانہ اور جائیداد ضبطی کی سزا سنائی گئی تھی۔ جس کے خلاف چار جنوری کو نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور فیصلے کے خلاف اپیل اور ساتھ ہی سزا معطلی کی درخواست بھی دائر کی تھی۔

نواز شریف سزا سنائے جانے کے بعد سے کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے جہاں سے انہیں علاج کے غرض سے جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔

واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں بھی نوازشریف کو آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جس کے خلاف انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی جسے منظور کرتے ہوئے عدالت نے گزشتہ سال 19 ستمبر کو رہائی کا حکم دیا تھا۔

شہباز شریف نے میڈیا سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے فیصلے پر قانونئ مشاورت جاری ہے، ہم  ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا ہے۔ نہ ماضی میں اور نہ ہی اب گھبرائیں گے۔

انہوں ںے کہا کہ مسلم لیگ نون نواز شریف کے حالیہ عدالتی فیصلے پر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔

درخواست ضمانت مستر ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالتی فیصلے پر شدید مایوسی ہوئی ہے تاہم ہم عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا جو علاج ہو رہا ہے وہ جیل کے ماحول میں نہیں ہو سکتا اس کے لیے ضمانت ملنا ضروری ہے۔

پرویز رشید نے کہا کہ ہم تمام قانون راستے اپنائیں گے اور یہ ہمارا حق ہے۔ ہم فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے۔

سابق نیب پراسیکیوٹر راجہ عامر عباس نے کہا کہ نواز شریف کے علاج کے لیے ضمانت کا ہونا ضروری نہیں ہے، اُن کا علاج جیل میں بھی ہو سکتا ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار محمد مالک نے کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ انتہائی خطرناک نہیں تھی اور میڈیکل بورڈ کے مطابق اُن کا علاج پاکستان میں ممکن تھا۔ اس لیے ضمانت ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے حامیوں کو امید تھی کہ ضمانت ہو جائے گی اور اگر ضمانت ہوجاتی تو نواز شریف باہر آکر پارٹی کو مضبوط کرتے۔ جو اب ممکن نہیں رہا۔

حکومتی جماعت کے رہنما اعجاز چوہدری نے کہا کہ نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن ہے، تمام قیدیوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ نون ان کی بیماری پر سیاست کر رہی ہے۔

وزیر اطلاعات پنجاب فیاض، الحسن چوہان نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، عدالتی فیصلہ درست ہے۔

پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ملک میں عام اور خاص آدمی کے لیے انصاف کا معیار ایک جیسا نہیں ہے۔ فیصلے سے مسلم لیگ نون کی پوزیشن کمزور نہیں ہو گی۔ علاج کے لیے نرمی دینی چاہیے تھی۔


متعلقہ خبریں