بھارت: ٹاڈا عدالت نے گیارہ مسلمانوں کو 25 سال بعد بری کردیا


دہلی: فراہمی انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار کے مترادف ہے، یہ مشہور مقولہ اس وقت درست ثابت ہوا جب بھارت کے گیارہ مسلمان نوجوانوں کو عدالت نے دہشت گردی کے جھوٹے اور من گھڑت الزامات سے بری کردیا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق ناسک کی خصوصی ٹاڈا عدالت نے گیارہ مسلمانوں کو الزامات سے 25 سال بعد بری کیا یعنی ان کی عمر کا سنہرا دور عدالت کے چکر لگانے اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے میں گزر گیا۔

مسلمانوں کی بریت ہندوستانی مسلمانوں کی قدیم تنظیم جمعیت علمائے ہند (ارشد مدنی) کی کاوش کا نتیجہ ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق عدالت نے ملزمان کو نا کافی ثبوت اور تحقیقات کے دوران ٹاڈا قانون کے رہنما اصولوں کی دھجیاں اڑانے کو بنیاد بنا کر باعزت بری کیا۔ جھوٹے الزامات کا سامنا کرنے والے مسلمانوں نے عدالتی فیصلہ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور سکھ کی سانس لی۔

28 مئی 1994 کو ہندوستانی پولیس کی تحقیقاتی ٹیم اور دیگر ایجنسیوں نے صوبہ مہاراشٹر سمیت دیگر علاقوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ گیارہ مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا۔ گرفتار شدگان پر تعزیرات ہند کی دفعات 153 (A) 120، (B) اور ٹاڈا قانون کی دفعات 3 (3) (4)(5)، 4 (1) (4) کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔

گرفتار مسلمان نوجوانوں پرالزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ بابری مسجد کی شہادت کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے کشمیر جاکر دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کی ٹریننگ بھی حاصل کی تھی۔

بھارتی پولیس اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں نے جمیل احمد ولد عبداللہ خان، محمد یونس ولد محمد اسحاق، فاروق خان ولد نذیر خان، یوسف خان ولد گلاب خان، ایوب خان ولد اسماعیل خان، وسیم الدین ولد شمش الدین، شیخ شفیع ولد شیخ عزیز، اشفاق سید ولد مرتضی میر، ممتاز سید ولد مرتضی میر، محمد ہارون ولد محمد بفاتی اور مولانا عبدالقدیر حبیبی کو ’بھساول الجہاد‘ نامی تنظیم کا رکن بتایا تھا۔

گرفتار شدگان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ناسک اور بھساول میں مسلمانوں کو جہاد کرنے پر اکسا رہے تھے اور انہوں نے سرکاری عمارات سمیت دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے عدالتی فیصلے پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح 25 برس کے انتظار کے بعد انصاف ملا ہے وہ اس انگریزی کہاوت کو سچ کردکھاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔

انہوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ دکھ کی کی بات تو یہ ہے کہ عدالتی فیصلے پر نہ تو ملک کے میڈیا نے کچھ کہا اور نہ ہی وہ دانشور طبقہ بولا جو سیکولرازم کی قسمیں کھاتا نہیں تھکتا ہے۔

مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ بلا شبہ انصا ف ملا اور ایجنسیوں کا جھوٹ ایک بار پھر طشت از بام ہوا لیکن انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ملنے والے انصا ف سے متاثرہ لوگوں کی زندگی کے تباہ ہوئے ماہ و سال واپس لوٹائے جا سکتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ جب تک بے گناہوں کی زندگیاں تباہ کرنے والے افسران کو سزائیں نہیں دی جائیں گی اس وقت تک اسی طرح لوگ گرفتار اور رہا ہوتے رہیں گے۔

مولانا مدنی نے کہا ہ ایجنسیاں اسی طرح مسلمان نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کرتی رہیں گی۔ انہوں نے اس ضمن میں سیاسی جماعتوں سے کسی بھی قسم کی توقع کو فضول قرار دیا۔

جمعیت علمائے ہند کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے عدالتی فیصلے پر کہا کہ حصول انصاف میں تاخیر ہوئی لیکن مسلمانوں کے ماتھوں پر سے دہشت گردی کا کلنک صاف ہونا اہم بات ہے۔

گلزار اعظمی نے انکشاف کیا کہ ریو کمیٹی نے 20 سال قبل ملزمان کو مقدمہ  سے ڈسچارج کرنے کی سفارشات حکومت کو پیش کی تھیں لیکن حکومتی سفارشات کو نچلی عدالت نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا  خمیازہ ملزمان کو بھگتنا پڑا کیونکہ انہیں عدالت میں ثابت کرنا پڑا کہ ان پر جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں