او آئی سی میں بھی ناکامی، مودی سرکار اپوزیشن کے نشانے پر



نئی دہلی: او آئی سی کی جانب سے جموں و کشمیر کو بنیادی تنازع قرار دینے پر بھارتی اپوزیشن نے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کو نشانے پر رکھ لیا۔

او آئی سی نے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں نہ صرف جموں کشمیر کو دونوں ممالک کے درمیان بنیادی تنازع قرار دیا بلکہ مقبوضہ کشمیر میں تشدد کی مذمت بھی کی۔

واضح رہے کہ بھارت اس اجلاس میں ’گیسٹ آف آنر‘ کے طور پر شریک تھا، اس پشرفت پر بی جے پی حکومت اپنے ہی ملک میں تنقید کی زد میں آ گئی ہے۔

مزید پڑھیں: بالاکوٹ حملہ کا ثبوت مانگنا فوجی مورال ڈاؤن کرنے کے مترادف ہے، مودی

اجلاس میں شرکت کو بھارت میں پاکستان کے خلاف سفارتی فتح اور ایک اہم سنگ میل قرار دیا جارہا تھا تاہم شرکت کی خوشیوں پر  تنظیم کی قرارداد نے پانی پھیر دیا۔

اجلاس میں کشمیری عوام کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا گیا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کو بنیادی مسئلہ قرار دیا گیا۔

او آئی سی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت پر زور دیا۔

اجلاس میں بھارت کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر بھی اظہار تشویش کیا گیا۔

ترجمان کانگریس رندیم سنگھ نے ٹویٹ میں کہا کہ بھارت کی سفارتی فتح اس کے لیے شرمندگی بن گئی ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ وزیر خارجہ کو بھارت کے خلاف الزامات سنانے کے لیے دعوت دی گئی تھی۔ وزیراعظم نریندر مودی قوم کو ان سوالوں کا جواب دیں ۔

بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کےرہنمااوآئی سی میں شرکت پرمودی سرکارپربرہم دکھائی دے رہے ہیں۔ کانگریس رہنما منیش تیواڑی نے کہاہے کہ مودی سرکارنےبھارت کواوآئی سی سےدہشتگردریاست قراردلوادیاہے۔ سشماسوراج کوسفارتکاری کاکچھ معلوم نہیں،بھارت اوآئی سی میں ناکام ہوگیا۔

دوسری جانب ترجمان دفترخارجہ محمد فیصل نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ او آئی سی کے 57 ممالک نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی۔


متعلقہ خبریں