‘کالعدم تنظیموں کی اتحادی جماعت سے توقع رکھنا تھوڑا مشکل ہے’



اسلام آباد: سابق وفاقی وزیرشیخ وقاص اکرم نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کی اتحادی جماعت سے توقع رکھنا تھوڑا مشکل ہے، آپریشن بلاتفریق ہو لیکن بات یہ ہے کہ کیا حکومت ایسا کرسکتی ہے۔ پنجاب حکومت نے کالعدم تنظیموں کے اراکان کو حکومت میں شامل کر رکھا ہے۔

پروگرام بڑی بات میں میزبان عادل شاہ زیب سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ پاکستان پرعالمی دباؤ بڑھتا ہے تو حکومت کی کارروائیاں تیز ہوجاتی ہیں، ماضی میں بھی حکومتوں کا ایسا ہی جوش تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن ناگزیر ہے کیونکہ یہ رپاست پاکستان کے مفاد میں ہے، ماضی میں حکومت اور اسٹیٹ کے ایجنڈے میں فرق ہوتا تھا، نیشنل ایکشن پلان سب نے مل کربنایا، کالعدم جماعتوں کے خلاف آپریشن لازمی ہونا چاہیے۔

شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندراور باہ رکارروائی کرنے والے تمام گروہ ختم کرنے ہوں گے۔

بدلتے حالات میں پاکستان کے لیے مشکلات بڑھی ہیں،تجزیہ کار عامر رانا

پروگرام میں موجود تجزیہ کارعامر رانا نے کہا کہ بدلتے حالات میں پاکستان کے لیے مشکلات بڑھی ہیں، اس لیے حکومت نے اس معاملے کو حل کرنے کی ٹھان لی ہے، یہ بڑاخوش آئند ہے کہ قومی قیادت ایک ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب سب سے اہم معاملہ انہیں منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کو مکمل طور پرختم کرنا ہے۔

عامر رانا نے کہا کہ کچھ تنظیموں کے اراکین کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے راستہ دیا جائے گا، یہ ایک مہنگا کام ہے ۔ ماضی میں اتنی سیجندگی سے حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا آغاز نہیں کیا۔

الگ مذہب اورسوچ سے ہی معاشرے میں حسن آتا ہے،فوادچوہدری

وفاقی وزیراطلاعات فوادچوہدری نے کہا کہ اقلیتوں کا احترام نہیں کریں گے تو ملک کا اچھا تاثر نہیں جائے گا، وزیراعظم کے اس اقدام کو سراہا جارہا ہے۔ وزیراعظم نے اپنی طرف سے یہ بڑا قدم اٹھا ہے، سب پاکستانی ہیں ، الگ مذہب اورسوچ سے ہی معاشرے میں حسن آتا ہے۔

ڈرگ ریگولٹری اتھارٹی کے سربراہ کی ڈگری مشکوک ہونے کی خبر گزشتہ روز ہم نیوز نے دی تھی، آج یہ معاملہ سینیٹ میں بھی اٹھایا گیا۔

نمائندہ خصوصی ریاض الحق نے بتایا کہ اگر پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں تھی توسربراہ باربارکیوں ڈاکٹر کا نام استعمال کررہے ہیں، وزرات کو غرض نہیں تو انہوں نے تصدیق کے لیے خط کیوں لکھا، اب وزرات صحت معاملے پر موقف دینے سے انکاری ہے۔

نمائندہ خصوصی نے بتایا کہ جس یونیورسٹی کی ڈگری ہے اس کی کوئی تفصیلات موجود نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی ویب لنک ہے، یہ سربراہ ہی اسی لیے بنے کہ ان کے پاس ڈگری موجود تھی۔


متعلقہ خبریں