خواتین کو مضبوط دیکھنا میرا خواب ہے، سلطانہ صدیقی


جب جب خواتین کا عالمی دن قریب آتا ہے ہماری نظریں متلاشی ہوتی ہیں ایسی خواتین کی جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو ایسے میں، میں جب بھی نظریں اُٹھاتی ہوں تو اپنے بہت ہی قریب مجھے ایک ایسا بہت بڑا نام نظر آتا ہے جن کی زندگی کارناموں سے تعبیر ہے۔ یہ شخصیت ہے سلطانہ صدیقی کی جو ہم نیٹ ورک کی صدر ہیں۔

سلطانہ صدیقی جنہیں پوری صنعت سلطانہ آپا کے نام سے جانتی ہے، آج جس مقام پر ایستادہ ہیں وہ انہیں تھال میں سجاکر پیش نہیں کیا گیا بلکہ انہوں نے یہاں تک آنے اور خود کو منوانے کیلئے شبانہ روز محنت کی ۔ان کی اپنی زندگی بھی مسائل سے دوچار رہی لیکن انہوں نے کسی بھی مرحلے پر مایوس ہونے کے بجائے زندگی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا، یہاں تک کہ وہ ایشیاء میں پہلی خاتون بنیں جنہوں نے ایک مضبوط ٹیلی ویژن نیٹ ورک قائم کیا۔ سلطانہ آپا حیدرآباد کے قاضی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، 5 بہن اور 5 بھائیوں میں اُن کا ساتواں نمبر ہے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حیدرآباد سے حاصل کی، بعد ازاں نفسیات اور تقابلی مذاہب کے شعبے میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔

سلطانہ صدیقی نے اپنے کیرئیر کا آغاز چار دہائی قبل پی ٹی وی سے بطور پروڈیوسر کیا۔ انہیں عبدالکریم بلوچ نے ایک سندھی شو میں متعارف کرایا، بعد ازاں انہوں نے گاہے بگاہے میزبانی اور اداکاری بھی کی۔ 1974ء میں انہوں نے باقاعدہ پی ٹی وی میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کی اور 2000ء میں ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس دوران انہوں نے سکینہ سموں، ماہ نور بلوچ، عابدہ پروین، ٹینا ثانی اور جنون بینڈ سمیت کئی بے مثل فنکاروں کو متعارف بھی کرایا ۔

سلطانہ آپا نے 1996ء میں مومل پروڈکشنز کے نام سے پروڈکشن ہاﺅس قائم کیا اور مختلف پروڈکشن ہاﺅس کیلئے کئی پراجیکٹ بنائے۔ 2005ء میں انہوں نے آئی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے نام سے چینل کا آغاز کیا جسے 2011ء میں ہم نیٹ ورک کا نام دیا گیا۔ آج ہم نیٹ ورک کے سائے تلے چار چینل فعال ہیں جن میں ہم ٹی وی، ہم ستارے، ہم مصالحہ اور ہم نیوز شامل ہیں۔ اشاعتی شعبے میں اس نیٹ ورک سے مصالحہ ٹی وی فوڈ میگزین، گلیم اور نیوز لائن کامیابی سے جاری ہیں جبکہ اس پلیٹ فارم سے چار کک بکس لائیو ایٹ نائن، ہانڈی، لائیو ایٹ نائن اور مصالحہ ڈیزرٹس کا اجراءبھی کیا گیا۔اُن کی خدمات کے صلے میں آج تک انہیں بے شمار ایوارڈز بشمول پرائیڈ آف پرفارمنس اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی دی گئی۔

سلطانہ آپا کی شخصیت ہمہ جہت ہے جس میں سے ہر جہت کے منفرد، واضح اور خوبصورت رنگ ہیں۔ آج ہم ان سے موضوع خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کی گئی بات چیت کو اپنے قارئین کی نذر کررہے ہیں جو یقیناً خواتین کیلئے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔

سوال: خواتین کا عالمی دن، کیا آپ اس دن کو منانے کے حق میں ہیں؟

سلطانہ صدیقی: دیکھئے ویسے تو ہر دن ہی عورت کا دن ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اگر کوئی دن خواتین کیلئے مخصوص کرکے منایا جارہا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اس دن اگر خواتین کے حقوق کے حوالے سے کی گئی بات چیت کچھ ذہنوں کو روشن کردے تو بہت اچھی بات ہے۔

سوال: کیا آپ کے گھرانے میں لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے؟

سلطانہ صدیقی:جی ہاں،الحمد اللہ ہمارے ہاں لڑکیاں ملازمت کریں یا نہ کریں لیکن انہیں پڑھایا ضرور جاتا ہے۔میری پھوپھی ڈاکٹر تھیں ،میری ایک بہن بھی ڈاکٹر ہے جبکہ بھائی سی ایس پی آفیسر تھے ،میں بھی سی ایس ایس کرنا چاہتی تھی لیکن میڈیا انڈسٹری کی جانب آگئی ۔

سوال: جب آپ نے کام کا آغاز کیا اس وقت آپ کے بچے چھوٹے تھے، آپ نے کام اور گھر میں کیسے توازن پیدا کیا ؟

سلطانہ صدیقی:جب تک بچے چھوٹے تھے اس وقت تک میں ٹی وی کےلئے چھوٹے ،چھوٹے پروگرام کیاکرتی تھی تاکہ میں بچوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ دے سکوں کیوں کہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ سب سے اہم بات ہے ، پھر بچے جب کچھ بڑے ہوئے تو میں باقاعدہ اپنے شعبے کی جانب آئی اور اس کے بعد میں نے بہت اہم اور بہت بڑے، بڑے پروگرامز کئے ۔

سوال: زندگی میں کبھی رسک لئے؟

سلطانہ صدیقی: بہت زیادہ، میرے نزدیک کام کرنے کیلئے واضح ویژن اور رسک لینا دونوں اہمیت کے حامل ہیں، میں نے بھی اپنی زندگی میں بہت سے رسک لیتے ہوئے بے شمار کام کئے جس میں شپ بریکنگ بھی شامل تھی۔ میں سوچتی تھی کہ جو کام دوسرے کرسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کرسکتی اور رسک لے کر کئے جانے والے کام کی کامیابی کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ آپ جس چیز کیلئے محنت اور جدوجہد کریں اور وہ چیز کامیاب ہوجائے تو پھر دل کو بڑی راحت ملتی ہے۔ مجھے کبھی بھی دولت کمانے کا کوئی بہت شوق نہیں تھا، میری خواہش ہے کہ نئی سے نئی چیز کروں اور لوگوں تک پہنچاﺅں، جب لوگ میری کاوشوں کو سراہتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے اور میرے لئے صحیح معنوں میں یہی ایوارڈ ہے ۔

سوال: کیا آپ اپنے چینل کے ذریعے خواتین کے حوالے سے اپنے خواب پورے کرپائیں؟

سلطانہ صدیقی: الحمداللہ! میں سوچتی تھی خواتین سے متعلق ترقی یافتہ سوچ، خیال اور خواب کو کس طرح سے عملی زندگی میں متحرک کیا جائے ایسے میں میرے پاس ٹی وی کی اسکرین جیسا مضبوط پلیٹ فارم تھا جہاں پر سماج کے بے رحم رویوں اور معاشرتی مسائل کو ایک منفرد انداز میں اُجاگر کیا جاسکتا تھا۔ ہم نیٹ ورک نے خواتین اور سماجی مسائل کو بڑے اچھوتے انداز میں ٹی وی اسکرین کی زینت بنایا جس میں تنگ نظر سوچ کی حوصلہ شکنی سمیت مثبت پیغام لاکھوں کروڑوں ذہنوں کے دریچوں تک پہنچایا ہے۔ ہم نے خواتین کے حقوق، ان پر ڈھائے جانے والے مظالم سمیت دیگر حساس موضوعات پر لاتعداد ڈرامے بنائے۔ ہم نے کبھی بھی خواتین کی روایتی مظلوم تصویر نہیں دکھائی بلکہ ان کو مضبوط اور باکردار دکھایا اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے ڈراموں نے کامیابی بھی حاصل کی اور زبردست بزنس بھی کیا۔

سوال: کیسا لگتا ہے جب بین الاقوامی پلیٹ فارم پر آپ کو پاکستان کے حوالے سے مدعو کیا جاتا ہے ؟

سلطانہ صدیقی: یقینا میرے لئے وہ لمحہ قابل رشک ہوتا ہے جب مجھے عالمی فورم پر ایشیاءکی واحد خاتون اُونر کہہ کر بلایا جاتا ہے ۔یہ کوئی انوکھی بات نہیں دنیا میں بہت سی خواتین ایسی ہیں جو اپنے کام کے حوالے سے معروف ہیں لیکن ہرعورت کو کسی نہ کسی کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن میں آج جہاں بھی ہوں اپنے بل بوتے پر ہوں۔ایشیاءکی واحد خاتون چینل اونر ہونامیرے لئے اتنا اہم نہیںجتنااہم اپنے کام سے انصاف کرنا ہے ۔اس مقام ،عزت اور رتبے کیلئے میں اللہ رب العزت کی شکرگزار رہتی ہوں ۔

سوال: آپ نے ہمیشہ اپنے ادارے میں خواتین کو اہمیت دی اور ان کی تربیت بھی کی، کیا وہ بھی آپ کی توقعات پر پورا اُترتی ہیں ؟

سلطانہ صدیقی: میرے ادارے میں بہت سی خواتین ہیں اور بہت اہم عہدوں پر فائز ہیںجو اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کررہی ہیں۔میرا تجربہ یہ ہے کہ خواتین نسبتاً زیادہ ذمہ دار اور منفرد سوچ کی مالک ہوتی ہیں اسلئے کام بھی بہتر کرسکتی ہیں ۔خواتین کے ذمہ بہت سے امور ہوتے ہیں جن کی منصوبہ بندی کےساتھ ادائیگی ان ہی کا خاصہ ہے ۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اپنے ادارے میں لڑکیوں کو مددگارماحول فراہم کروں تاکہ ان کے جوہر کھلیں ۔میں نے اپنی خواتین کو سکھایا ہے کہ مسائل کا رونا رونا مناسب نہیں ہے بلکہ میرے پاس حل لے کر آﺅ اور آج مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ لڑکیاں میرے پاس مسائل لے کر نہیں آتیں بلکہ مسائل کا حل ساتھ لے کر آتی ہیں۔ہمارے ادارے میں خواتین سے بدتمیزی برداشت نہیں جاتی اور اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا ماحول اس حوالے سے بہت اچھا ہے۔ ہمارے اداری میں مرد حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کی دوہری عزت کریں اور اس بات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ میں اپنی لڑکیوں کو بھی سمجھاتی ہوں کہ اپنے کام سے کام رکھیں یہی وجہ ہے کہ الحمد اللہ میرے ادارے کا مثالی ماحول ہے ۔

سوال: کیا آپ خواتین کی ترقی کی رفتار سے مطمئن ہیں ؟

سلطانہ صدیقی: نہیں!میں سمجھتی ہوں کہ خواتین کی ترقی کیلئے ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔وا قعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں صرف شہروں میں کچھ فیصد خواتین کام کررہی ہیں ۔ ہماری بچیاں میڈیکل، بی بی اے اور انجینئر نگ پڑھ تو لیتی ہیں لیکن ملازمت کی طرف صرف 10فیصد بچیاں آپاتی ہیں جو افسوسناک صورحال ہے۔خواتین کیلئے قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا اس لئے خواتین کو بے شمار مسائل درپیش ہیں ۔ہماری خواتین آج بھی بہت سارے معاملات پر احتجاج نہیں کرپاتیں، ہراسمنٹ کا مسئلہ ہے تو خواتین خاموش رہتی ہیں، گھریلو تشدد کے حوالے سے کون رپورٹ درج کراتا ہے ، اگر کوئی صدا بلند کربھی لیتا ہے تو اسے انصاف نہیں ملتا، ۔بات مزید بگڑ جاتی ہے، مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔ضرورت اس وقت اس بات کی ہے کہ زیادہ عورتیں باہر نکلیں ،ایک دوسرے کا ساتھ دیں ،کام کریں اور مل کر خواتین کے حقوق کی جنگ لڑیں ۔

سوال: کیا مردوں کی فطرت کی تبدیلی میں کیا ماﺅں کا کردار اہمیت کا حامل ہے ؟

سلطانہ صدیقی:جی ہاں، بہت زیادہ۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر مائیں اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ ہر عورت کو عزت دیںتو معاشرے کا نقشہ ہی بدل جائےگا۔ماﺅں کیلئے ضروری ہے کہ وہ بیٹوں کی بے جا حمایت نہ کریں بلکہ اگر اس کے علم میں آئے کہ اس کے بیٹے نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس سے بازپرس کرے ۔بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت نہ دیں بلکہ مساوی حقوق دیئے جائیں تو یقینا بہترین نتائج سامنے آئیں گے۔

سوال: حقوق کے حصول کیلئے خواتین کو کیا مشورہ دیں گی؟

سلطانہ صدیقی: میں خواتین کو نہیں بلکہ مردوں کو مشورہ دوں گی کہ بیویوں کی عزت کریںاور بیٹیوں کے فیصلوں کی حمایت کریں۔ اگر مرد صرف اپنی عورتوں کا ساتھ دیں تو بھی بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔جو مرد اپنی بیویوں کو سکون نہیں دے سکتے انہیں اچھے اور فرمانبردار بچوں کی توقع کا بھی حق نہیں ہے ۔بیوی کو ذہنی سکون دیں تب ہی وہ اپنے بچوں کی صحیح تربیت دے سکے گی تو ضروری ہے کہ مرد اپنے رویوں کو بدلیں اور بیوی کے اچھی باتوں کو سراہیں ۔

سوال: ہمارے ہاں اگر کوئی لڑکی اپنے سسرال سے کسی وجہ سے واپس آتی ہے تو گھر والے اس کےساتھ منفی رویہ اختیار کرتے ہیں ، کیا یہ بات درست ہے ؟

سلطانہ صدیقی:قطعا ًنہیں، دراصل ہوتا یوں ہے کہ بہت سے گھرانے اپنے نااہل لڑکوں کی یہ سوچ کر شادی کردیتے ہیں کہ وہ شادی کے بعد ٹھیک ہوجائے گا۔دیکھئے آنے والی بیٹی کسی کے لڑکے کو ٹھیک کرنے نہیں بلکہ ایک اچھے ساتھی کےساتھ اچھا معاشرہ بنانے کیلئے آتی ہے۔ایسے میں اگر اس کی کوئی رنجش ہوجائے اور وہ گھر و الوں کی طرف دیکھے تو نہ صرف اس کے اپنے گھر والوں بلکہ لڑکے کے گھر والوں کی کی جانب سے بھی مثبت رویہ سامنے آنا چاہئے ۔معاشرے میں بہو اور بیٹی کی تفریق بھی ختم ہونی چاہئے۔

سوال: آپ کے خیال میں کیا کام کرنے والی خواتین اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرپاتی ہیں؟

سلطانہ صدیقی:بالکل، ہم نے اس پر باقاعدہ تحقیق کی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ ملازمت کرنے والی خواتین کے بچے زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں اور عملی زندگی میں دیگر کی نسبت زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایک پراعتماد عورت ہی اپنی نسلوں کو زیادہ پراعتماد بناسکتی ہے۔

سوال: خواتین کی ترقی میں مردوں کا کتنا ہاتھ ہوتا ہے ؟

سلطانہ صدیقی:بہت زیادہ !میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ ایک مرد کا اپنی بیٹی اور بیوی کا ساتھ دینا نہایت ضروری ہے ۔جب ہم بچیوں کو اعتماد نہیں دیتے تو وہ معاملات چھپانے لگتی ہیں جو نقصان کا باعث ہوتا ہے ۔ جس دن باپ اپنی بیٹیوں پر یقین رکھنے لگیں گے اسی دن سے رویئے بدلیں گے اور اچھے لوگ باہر نکلیں گے۔میرے کک کی نو بیٹیاں ہیں اور سب تعلیم حاصل کررہی ہیں جو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔میں تمام والدین سے کہنا چاہتی ہوں کہ اگرآپ کی بچی باصلاحیت ہے اور کچھ کرنا چاہتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں ۔

سوال: زندگی کی دو ڑ میں آگے بڑھنے کیلئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟

سلطانہ صدیقی: سب سے پہلے تو ہمیں اپنے رویئے بدلتے ہوئے اچھا کام کرنے والوں کی بلاتفریق عزت اور قدر کرنی ہوگی۔ میں نے بھی اس مقام تک پہنچنے کیلئے بہت محنت کی ہے، 18،18گھنٹے کام کیا ہے اور مجھے نہیں یاد کہ میں دن میں کبھی سوئی ہوں۔ضروری ہے کہ کسی کی غربت اور امارت کو معیار نہ بنایا جائے ،اللہ کا شکر ہے کہ کراچی کا ماحول بہت مختلف ہے یہاں لوگ زیادہ پیشہ ور ہیں اور کام کرنے والوں کی قدر کی جاتی ہے۔

سوال: فی زمانہ خواتین کو کن خطوط پر آگے بڑھنا چاہئے ؟

سلطانہ صدیقی:خواتین کو چاہئے کہ وہ خود کو بہت مضبوط بنائیں تاکہ اپنے شوہر اوربچوں کی بہترین مددگار ثابت ہوں۔ پاکستان میں محنتی خواتین کی کوئی کمی نہیں،انہیں صرف اپنے گھر والوں کے سہارے اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

سوال: آپ کا رول ماڈل کون ہے ؟

سلطانہ صدیقی:میرے بڑے بھائی مظہر الحق اور میری والدہ ۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہماری والدہ نے کبھی بھائیوں کو ہم پر فوقیت دی ہو ۔اگر کبھی کوئی بھائی ہم سے اُونچی آواز میں بات بھی کرلے تو ماں فورا ڈانٹ دیتی تھیں کہ کوئی بہن سے اس طرح سے بات کرتا ہے ۔اس کے بعد معاشرے میں کس طرح سے آگے بڑھنا ہے، مسائل کا سامنا کیسے کرنا ہے یہ میں نے اپنے بڑے بھائی سے سیکھا اور انہیں حقیقتاً خواتین کی نہ صرف عزت بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بھی دیکھا تھے۔میں سمجھتی ہوں کہ میں نے زندگی گزارنے کا ڈھنگ ان سے ہی سیکھا ہے۔

سوال: خواتین کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟

سلطانہ صدیقی: لڑکیاں اگر کچھ کرنا چاہتی ہیں تو اپنے گھر والوں کی رضامندی سے کریں ۔گھر کا جو بھی مرد ہے، باپ، بھائی یا شوہر اسے اعتماد میں لیں، اس کی رضامندی سے آگے بڑھیں تو زیادہ کامیابی حاصل کرسکتی ہیں۔اس کے ساتھ میں صرف خواتین سے نہیں بلکہ تمام لوگوں سے کہتی ہوں کہ محنت سے کام کریں ،ہر قوم جو آگے بڑھی ہے اس نے محنت کی ہے۔ ہمیں بھی سخت محنت اور اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے، جو کام دیا جائے اسے دیانتداری سے انجام دیں،صرف اپنے لئے نہ جئیںبلکہ دوسروں کیلئے بھی سوچیں ۔ اپنے تمام مسائل کے حل کیلئے حکومت کی طرف نہ دیکھیں بلکہ خود انحصاری کا رویہ اختیار کریں۔


متعلقہ خبریں