بی بی سی نے بھارتی دعوؤں کی قلعی کھول دی، وزیر بھی بے نقاب

بی بی سی نے بھارتی دعوؤں کی قلعی کھول دی، وزیر بھی بے نقاب

اسلام آباد: برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے بھارت کے وزیرشندلیہ گریراج سنگھ کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر شیئر کی جانے والی تصاویر کو جعلی قرار دے کر دنیا کو سچائی بتادی۔

ہم نیوز کے مطابق بھارت کے وزیر شندلیہ گریراج سنگھ کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر گزشتہ دنوں ایک پیغام کے ساتھ کچھ تصاویر شیئر کی گئی تھیں جن کے متعلق دعویٰ تھا کہ وہ پاکستانی علاقے بالا کوٹ میں بھارتی فضائیہ کی کارروائی کے بعد کی ہیں۔

 

بھارتی وزیرنے تصاویرکی زبانی دنیا کو بتانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کو کس قدر نقصان پہنچا ہے؟

شندلیہ گریراج سنگھ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ہندی نیوز چینل کی ویڈیو بھی شیئر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کا وہ کیمپ ہے جو انڈین فضائیہ کے حملے میں تباہ ہوا ہے۔

بی بی سی کے مطابق بھارتی وزیرنے اپنے ٹوئٹ پیغام میں لکھا تھا کہ تصاویر واضح طور پربتا رہی ہیں کہ انڈین فضائیہ نے پاکستان میں دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ کو تباہ کر دیا ہے۔

ہندی نیوز چینل کی تیارکردہ ویڈیو میں دو سیٹلائٹ تصاویر دکھائی گئی تھیں جن میں سے ایک کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ حملے سے پہلے یعنی 23 فروری کی ہے اور دوسری حملے کے بعد 26 فروری کو لی گئی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق بھارتی وزیرکی جانب سے شیئر کی جانے والی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اسے ہزاروں افراد نے دیکھا اورشیئر کیا۔

ہندی نیوز چینل کی تیارکردہ ویڈیوز کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’واٹس ایپ‘ پر یہ کہتے ہوئے شیئر کیا گیا کہ یہ انڈین حملے میں کیمپوں کی تباہی کا ثبوت ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہونے والے خودکش حملے میں 40 نیم فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے جیشِ محمد کے کیمپ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔

بی بی سی کے مطابق کیمپ کی تباہی کی جو تصاویر گریراج سنگھ اور دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے ثبوت کے طور پر شیئر کی جا رہی ہیں ان میں کئی نقائص ہیں۔

اول یہ کہ دونوں تصاویر خبر رساں ادارے کی جانب سے بدھ کو شائع کردہ کیمپ کی تصاویر سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق دوئم یہ کہ جب بی بی سی نے اسے کوارڈینیٹس کی مدد سے گوگل میپس پر تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ یہ جابہ میں واقع ایک عمارت کی تصویر کی ہے جو کہ ممکنہ طور پر لڑکیوں کا ایک ہائر سیکنڈری اسکول ہے۔

بی بی سی کے مطابق بھارت سے تعلق رکھنے والے کچھ انٹرنیٹ صارفین نے تصاویر میں دکھائی جانے والی  عمارت کو ایک نیا نام دینے کی کوشش میں اسے جیش محمد کا مدرسہ اور تربیتی اسکول قرار دے دیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر کب کی ہیں؟ جاننے کے لیے جب تصاویر کو گوگل پر ریورس امیج سرچ کی مدد سے جانچا گیا تو معلوم ہوا کہ مبینہ طور پر حملے کے بعد کا منظر دکھانے والی تصویر انٹرنیٹ پر اس کارروائی سے برسوں پہلے سے موجود ہے۔

ہندی نیوز چینل کی جانب سے تیار کی جانے والی ویڈیو میں شیئر کیے گئے کوارڈینیٹس کی مدد سے بی بی سی یہ جاننے میں بھی کامیاب ہوا کہ یہ تصویر ’زوم ارتھ‘ نامی ویب سائٹ سے لی گئی ہے۔

زوم ارتھ نامی ویب سائٹ ناسا اورمائیکروسافٹ بنگ میپس کی مدد سے نقشہ جات کے سیٹیلائٹ امیج دکھاتی ہے۔

بی بی سی نے زوم ارتھ  ویب سائٹ کے بانی پال نائیو سے بات کی جو لندن میں قیام پذیر ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصویر بہت پرانی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف ناسا روزانہ کی بنیاد پر نئی تصاویر اپ ڈیٹ کرتا ہے لیکن بنگ میپس کی تصاویر روزانہ اپ ڈیٹ نہیں کی جاتیں۔

وائرل ہونے والی تصویر کتنی پرانی ہے؟ بی بی سی کے اس سوال پر پال کا کہنا تھا کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ چند دن یا مہینوں کی بات نہیں ہے بلکہ یہ برسوں پرانی تصویر ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں سیٹیلائٹ تصویر میں دکھائی دینے والی عمارت زیرِ تعمیر تھی۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پال نائیو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام بھی جاری کیا ہے کہ ان تصاویر کا فضائی کارروائی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

بی بی سی کے مطابق دکھائی جانے والی پہلی تصویر گوگل میپس سے لی گئی ایک سیٹلائٹ تصویر ہے۔ یہ تصویر بھی جابہ کی ہی ہے لیکن عمارت کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ تصویر زیادہ پرانی نہیں ہے۔

ہندی ٹی وی نیوزچینل کا دعویٰ تھا کہ یہ تصویر 23 فروری کو لی گئی ہے لیکن اس دعوے پر سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر یہ تصویر 23 فروری ہے کی تو اس کے بعد گوگل میپس پر اس عمارت کی حالت کیوں نہیں بدلی؟

بی بی سی کے مطابق یہ وہ حقائق ہیں جن سے گریراج سنگھ اور ٹی وی چینل کے دعوؤں پر وہ سوالات اٹھتے ہیں جن کے جوابات تاحال سامنے نہیں آئے ہیں۔


متعلقہ خبریں