نیکٹا کو ختم کر کے ایک نیا ادارہ بنانا چاہیئے، اعجاز حیدر



اسلام آباد: معروف تجزیہ کار اعجاز حیدر کا کہنا ہے کہ 2013 میں بننے والے نیکٹا ایکٹ کے مطابق بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ضروری ہے، چونکہ پہلے پانچ سالوں کے دوران یہ اجلاس نہیں ہوا اس لیے  اس لیے یہ ادارہ اور اس کا بجٹ غیرقانونی ہے۔
ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیکٹا کو ختم کر کے اس کی جگہ امریکہ کی ہوم لینڈ سیکیورٹی جیسا ادارہ قائم کرنا چاہیئے جس کے پاس اختیار ہو اور وہ براہ راست وزیراعظم کے ماتحت ہو۔ایک سوال کے جواب میں اعجاز حیدر نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں طالبان کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی کی امریکی تعریف سے اتفاق نہیں کرتے۔ پاکستان کو بھی ایسا ہی موقف اختیار کرنا چاہیئے۔ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادیں موجود ہیں جن میں قابض قوت کے خلاف لڑنے والوں کو اسلحہ اٹھا کر جدوجہد کرنے کی اجازت ہے۔

ان کی رائے تھی کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ لڑائی کے فوراً بعد ہی کالعدم تنظیموں کے خلاف پکڑ دھکڑ نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ اس سے یہ تاثر ملا کہ ہم دباؤ میں آ کر یہ کام کر رہے ہیں۔

پروگرام میں شریک ایک اور معروف تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف راحیل شریف نے نیشنل ایکشن پلان پر پورے شد و مد سے عمل کرانے کی کوشش کی اور اسے صوبائی سطح تک لے گئے لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ کارروائی کمزور پڑ گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے عدلیہ اور پولیس کی اصلاح کی کوشش نہیں کی، اس معاملے میں سیاسی ارادہ بھی اگر تھا تو وہ پانامہ لیکس کی نذر ہو گیا۔

ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کی رائے تھی کہ ممبئی حملوں میں 15 ممالک کے باشندے مارے گئے جس کی وجہ سے ان ممالک کا رویہ پاکستان کی نجی عسکری تنظیموں کے معاملے میں سخت ہو گیا، ایف اے ٹی ایف کا طوق اسی دن سے ہمارے گلے میں پڑا ہے۔

امتیاز گل نے کہا کہ پاکستان ابھی تک فیصلہ نہیں کر پایا کہ کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں کیسے لایا جائے۔

فوجی عدالتوں کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کی کامیابی کی شرح 19 فیصد تھی، باقی فیصلوں پر عمل درآمد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ نے روک دیا تھا۔ اس کی جگہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی تعداد بڑھا دینی چاہیئے تھی۔

ایجنڈا پاکستان کے تیسرے مہمان جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف پاکستان اپنا قومی بیانیہ ترتیب نہیں دے سکا جس کی وجہ سے بین الاقوامی برادری کے سامنے اس کا موقف کمزور پڑ گیا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ پنجاب اور سندھ کی حکومتیں اس پر عمل درآمد کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت منی لانڈرنگ کرنے والوں میں سیاسی جماعتوں کے بڑے لوگ شامل ہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے معاملے میں دفاعی انداز اختیار نہیں کرنا چاہیئے۔

جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کے مطابق پاکستان کا عدالتی نظام منہدم ہو چکا ہے، ہمیں اس نظام کو بہتر بنانے کا کبھی نہیں سوچا اور اس بارے میں ہمیشہ سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوتے رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں