نواز شریف کو چار خطرناک بیماریاں لاحق ہیں،حامد میر


اسلام آباد: سینئر صحافی حامد میر نے کہا کہ نواز شریف کو چار خطرناک بیماریاں لاحق ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام بڑی  بات میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حکومتی ڈاکٹرز کے مطابق نوازشریف نو سے دس بیماریوں میں مبتلا ہیں جن میں سے چار بیماریاں انتہائی خطرناک ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ نے حکومت کو یہ تجویز دی تھی کہ نوازشریف کو ایسی جگہ رکھا جائے جہاں ان کی 24 گھنٹے نگہداشت ہو سکے۔

حامد میر نے کہا کہ بلاول بھٹو کی نواز شریف سے ملاقات کے بعد حکومت کے رویئے میں مثبت تبدیلی نظر آئی ہے وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ حکومت نوازشریف کا بہترین علاج کرائی گی۔

انہوں نے کہا کہ آج بلاول بھٹو نے نواز شریف کے موقف کا دفاع کیا ہے مسلم لیگ ن کے موقف کا نہیں۔

حامد میر نے کہا کہ نوازشریف کو معلوم تھا کہ وہ جیسے ہی لندن سے پاکستان واپس آئے گے تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا اس وقت مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ کا رویہ سب کے سامنے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت کے پہلے چھ ماہ ان کے لئے بہت مشکل تھے تاہم بھارت کے ساتھ کشیدگی کو ختم کرنے اور امن کی بات کرنے کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کا مثبت کردار اجاگر ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ جنگ کے امکانا ت خارج نہیں ہوئے اگر جنگ نہیں ہوتی تو بجٹ کے بعد اپوزیشن جماعتیں اکھٹی ہوں گی۔

حکومت نواز شریف کی بیماری کو لے کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے،مصطفی نواز

ترجمان بلاول بھٹو مصطفی نواز  نے کہا کہ نواز شریف نے بلاول بھٹو کو بتایا کہ کیسے حکومت  ان کی بیماری کو لے کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے جب کہ ان کی طبیعت کافی خراب ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس طرز کے الیکشن ہوئے ہیں اس حوالے سے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا مؤقف ایک ہے اور  بلاول بھٹو اور نوازشریف کی ملاقات پر بھی اس سے متعلق بات ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں خود بھی ملاقات میں شامل تھا اور نظر آ رہا تھا کہ نوازشریف کی طبیعت ٹھیک نہیں،ان کا کہنا تھا کہ حکومت این آر او کی باتیں کر رہی تھی تاہم نواز شریف اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹے ہوئے نظر آئے۔

ملا عمر افغانستان میں امریکی اڈے سے تین کلو میٹر دور زندگی گزار رہے تھے، ڈچ صحافی بیٹا ڈام

ڈچ صحافی بیٹا ڈام نے کہا کہ کافی لمبی ریسرچ کے بات اس نتیجے پر پہنچی کہ ملا عمر کا انتقال پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں ہوا۔

انہوں نے کہا میں ان کی سوانح حیات لکھ رہی تھی اور اس سے متعلق میں نے ان کے قریبی لوگوں سے بات کی ، اکثر افغان طالبان کو بھی ملا عمر کی موجودگی کا علم نہیں ہوتا تھا۔

بیٹا ڈام  نے بتایا کہ ملا عمر کہا کرتے تھے کہ وہ پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے اس لئے یہ تاثر  غلط ہے کہ وہ پاکستان میں رہے۔

انہوں نے بتایا کہ ملا عمر سیاسی طور پر زیادہ فعال نہیں تھے اور امریکہ کو بھی ان کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا جبکہ ملا عمر افغانستان میں ایک امریکا کے اڈے کے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہی زندگی گزار رہے تھے۔


متعلقہ خبریں