طالبان نے ملا عمر کے آخری ٹھکانے کی تصاویر جاری کردیں

طالبان ترجمان کی ملا عمر سے متعلق صحافی کے دعوے کی تصدیق

اسلام آباد: افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ طالبان کے بانی سربراہ اپنے انتقال تک افغانستان میں ہی مقیم رہے تھے اورانہوں نے کسی بھی ملک میں جانے سے انکار کردیا تھا۔طالبان ترجمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ملا عمر کے آخری ٹھکانے کی تصاویربھی جاری کردیں

طالبان کے بانی سربراہ ملا محمد عمر کے متعلق ڈچ صحافی بیٹی ڈم نے پوری دنیا کو یہ بتا کر ورطہ حیرت مٰیں ڈال دیا ہے کہ ملا عمر کئی سال تک افغانستان میں امریکی فوجی اڈے کے قریب مقیم رہے۔

ملا عمر امریکی فوجی اڈے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے جہاں امریکی نیوی سیلز اور برطانوی ایس اے ایس کے فوجی تعینات تھے۔ ان کا انتقال اپنے آبائی صوبے زابل میں ہوا جہاں انہوں نے زندگی کے آخری سال گزارے۔

ملا محمد عمر کا کا انتقال 2013 میں ہوا تھا لیلکن افغان طالبان نے یہ بات دو سال تک پوشیدہ رکھی تھی۔

یہ دعویٰ ایک نئی کتاب میں کیا گیا ہے جو ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی بیٹی ڈم نے تحریر کی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق ’ دی سیکریٹ لائف آف ملا عمر’ جب کہ امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے مطابق ’دشمن کی تلاش‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں ڈچ صحافی نے تحریر کیا ہے کہ طالبان کے بانی سربراہ تنہائی میں زندگی گزارتے تھے۔

کتاب میں درج ہے کہ وہ اس حد تک تنہائی پسند تھے کہ اپنے گھر والوں سے بھی ملاقات نہیں کرتے تھے البتہ ایک کتاب پر ایک خیالی زبان میں کچھ تحریر کرتے رہتے تھے۔

کتاب کے علیحدہ علیحدہ عنوانات کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اصل میں کتاب ڈچ زبان میں شائع ہوئی ہے البتہ آئندہ ماہ یہ انگریزی زبان میں بھی شائع ہوجائے گی۔ فی الوقت کتاب کا مختلف عالمی خبررساں ایجنسیوں نے اپنے طورپر ترجمہ کرکے اسے مختلف عنوانات دیے ہیں۔

 

عالمی ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہونے والی اسٹوری پرافغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ ایک پیغام میں کتاب کے مندرجات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملا عمر تمام عمر افغانستان میں ہی مقیم رہے اور اُنہوں نے کبھی ایک دن بھی پاکستان اور یا کسی دوسرے ملک میں نہیں گزارا۔

 

سعودی عرب کے شہر جدہ سے شائع ہونے والے مؤقر اخبار ’اردو نیوز‘ نے طالبان ترجمان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ترجمان کے مطابق ان کا انتقال افغانستان میں اس لیے ہوا کہ اُنہوں نے کسی بھی دوسرے ملک میں علاج کرانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

افغان طالبان کے ترجمان نے اس حوالے سے دو تصاویر بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شیئر کی ہیں جن کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ یہ جگہ طالبان کے بانی سربراہ کی قیام گاہ تھی۔ تصاویر میں ان کے زیراستعمال اشیا بھی دکھائی دے رہی ہیں۔

افغان صدراشرف غنی کے ڈپٹی چیف آف سٹاف اور ترجمان ھارون چخان صوری نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ ملا عمر نے اپنی زندگی کے آخری ایام افغانستان میں گزارے تھے۔

 

اس ضمن میں ان کا مؤقف ہے کہ  یہ اقدام طالبان اوران کے مغربی حامیوں کے درمیان بظاہر ایک نئی شناخت پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔

ملا عمر کے متعلق امریکیوں سمیت مغرب میں یہ عام تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں کسی جگہ پوشیدہ ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا کہ وہ ہماری سرزمین پر نہیں ہیں۔

ڈچ صحافی نے کتاب لکھ کر تصدیق کردی کہ ملا عمر واقعی پاکستانی سرزمین پر نہیں تھے بلکہ وہ امریکی فوجی بیس کے انتہائی قریب سالوں مقیم رہے اور وہیں انتقال بھی کرگئے۔

ایک مغربی ملک کی خبررساں ایجنسی کے مطابق بیٹی ڈم نے اپنی کتاب کی تیاری میں پانچ سال تک مواد اکھٹا کیا اور ساتھ ہی اس پر تحقیق کی۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق ڈچ صحافی نے ملا عمر کے محافظ جبارعمری سمیت دیگر طالبان رہنماؤں کا انٹرویو بھی کیا۔ جبارعمری نے طالبان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بعد نہ صرف انہیں سب کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھا بلکہ حفاظت کا بھی فریضہ سرانجام دیا۔

کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملا عمر شام کو بی بی سی پر پشتو سروس پہ خبریں ضرورسنتے تھے لیکن جب انہوں نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر سنی تو اس پر بھی تبصرہ نہیں کیا۔

نائن الیون حملوں کے بعد جب افغانستان میں طالبان کا اقتدار ختم ہو گیا تھا تو امریکہ نے ملا عمر کے سرکی قیمت ایک کروڑ ڈالرز مقرر کی تھی۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق بیٹی ڈم نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کے بعد ملا عمر زابل کے دارالحکومت قلات کے ایک چھوٹے سے احاطے میں مقیم رہے تھے۔ اسی احاطے میں مقیم ایک خاندان نے اپنے پراسرار مہمان کی شناخب کبھی ظاہر نہیں کی لیکن امریکی فورسز دو مرتبہ ان کی تلاش میں قریب پہنچ گئی تھیں۔

ڈچ صحافی کے مطابق ایک موقع ایسا آیا تھا جب ایک امریکی گشتی ٹیم اس احاطے کے قریب پہنچ گئی تھی جس میں ملا عمر اور عمری موجود تھے۔ اس وقت دونوں نے اپنی جان بچانے کے لیے لکڑیوں کے گٹھے کے پیچھے چھپنے میں عافیت جانی تھی۔

کتاب میں لکھا ہے کہ دوسرا موقع اس وقت آیا تھا جب گھر گھر تلاشی کے دوران امریکی فوجی اس احاطے کی تلاشی بھی لے گئے تھے کہ جس کے ایک کمرے میں ملا عمر موجود تھے مگر وہ اندر نہیں آئے تھے۔

مغربی خبررساں ایجنسی کے مطابق طالبان کے بانی سربراہ ملا عمر نے اس وقت یہ جگہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا جب 2004 میں امریکہ نے لغمان میں اپنا فارورڈ آپریٹنگ بیس ان کے ٹھکانے سے صرف چند سو میڑ کے فاصلے پر تعمیر کرنا شروع کیا۔

ڈچ صحافی نے لکھا ہے کہ جب پینٹاگون نے ولورین میں اپنا فارورڈ آپریٹنگ بیس تعمیر کر لیا تو ملا عمر ایک دوسری عمارت میں منتقل ہو گئے۔ اس فوجی اڈے پر تقریباً ایک ہزار فوجی مقیم تھے اور بسا اوقات وہاں امریکہ اور برطانیہ کی اسپیشل فورسز بھی موجود رہتی تھیں۔

کتاب میں لکھا ہے کہ پکڑے جانے کے خطرے کے باوجود ملا عمر نے دوبارہ کسی اور جگہ منتقل ہونے کا خطرہ مول نہ لیا۔ وہ باہر نہیں نکلتے تھے اور بعض اوقات وہ ایسی سرنگوں میں بھی چھپے رہے جن کے اوپر سے امریکی طیارے پروزار کرتے رہے۔

ملا عمر کی قیادت میں طالبان 1996 سے 2001 کے دوران افغانستان میں برسراقتدار میں رہے۔ 2001 کے بعد سے ملا عمر نے طالبان کے انتظامی امورسمیت دیگر ذمہ داریاں مختلف رہنماؤں کو تفویض کردی تھیں۔

امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ کے مطابق پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر ریک اولسن کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ امریکہ چاہتا تھا کہ ملا عمر کا پتا چلے مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں مقیم ہیں؟

وی او اے کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں سابق سفیر نے کہا کہ ملا عمر کی رہائش گاہ اس وقت ظاہر سی بات ہے ایک معمہ تھی لیکن شاید اب وہ حل ہوگئی ہے۔

ڈچ صحافی کی کتاب سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ ملا محمد عمراپنی تنظیم کو اپنی رہائش گاہ سے چلانے میں یکسر ناکام رہے تھے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق طالبان کا دوحہ میں دفتر انہی کی منظوری سے قائم ہوا تھا۔ دوحہ قطر میں گذشتہ دو ہفتوں سے امریکہ اورافغان طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔

کتاب میں لکھا ہے کہ دسمبر 2001 میں ملا عمر نے طالبان کے انتظامی امور کی ذمہ داری اپنے وزیر دفاع ملا عبید اللہ کو سونپ دی تھی۔

ڈچ صحافی کے مطابق تلاشی سے بچنے کے لیے ملا عمر کئی بار کھیتی باڑی کے لیے بنائی گئی سرنگوں میں چھپ جاتے تھے۔

ملا عمر کی موت اپریل 2013 میں ہوئی اور انھیں بغیر نشان والی ایک قبر میں دفن کر دیا گیا تھا۔


متعلقہ خبریں