کشمیری طلبا کی مدد جرم بن گئی: بھارتی صحافی کو جان کی دھمکی

کشمیری طلبا کی مدد جرم بن گیا: بھارتی صحافی کو جان کی دھمکی

اسلام آباد: انتہا پسند ہندوؤں نے پلوامہ واقع کے بعدعقل و شعورسے عاری ہوکر دلیل سے بات کرنے یا انسانیت کا ذکر کرنے والے اپنے ہی ہم وطنوں کی زندگی نہ صرف اجیرن کردی ہے بلکہ ان کا ناطقہ بھی بند کردیا ہے۔

جنونی ہندوؤں نے نجوت سنگھ سدھو، کمل ہاسن، ثانیہ مرزا، کپل شرما اور کراچی بیکری کے مالکان کے علاوہ نجانے کتنے ہندوستانی افراد پر پاکستانی ’ایجنٹ‘ ہونے کے الزامات عائد کرکے ان کی زندگیوں کو خطرات میں ڈال دیا ہے۔

بھارت میں جنونی ہندوؤں نے اب نشانے پر رکھا ہے بھارتی خاتون صحافی سگریلکا کسو (Sagrilka Kissu) کو کیونکہ ان کا جرم یہ ہے کہ جب پلوامہ واقع کے بعد پورے بھارت میں مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے افراد اور طلبا کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور یونیورسٹیوں و کالجوں کے ہاسٹلوں میں ان کا رہنا دوبھر ہو گیا تھا تو ایسے میں مجبور و بے بس طلبا کی اپنے علاقوں میں واپسی یقینی بنانے میں انہوں نے انسانیت کے ناطے اہم کردار ادا کیا تھا۔

عالمی اور بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق سگریلکا کسو نے مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایسے کم از کم 18 طلبا کی زندگیاں محفوظ بنانے میں کردار ادا کیا تھا جو امبالہ، جے پور اور دھیرہ دون کے تعلیمی اداروں سے نکلے تھے لیکن انہیں اپنے علاقوں میں جانے کے لیے سخت دشواری کا سامنا تھا۔

کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف سری نگر میں تاجر اتحاد کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا تھا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔

پلوامہ واقع کے بعد مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں کشمریوں کی املاک کو بھی سخت نقصان پہنچایا گیا تھا اور پولیس نے حسب معمول خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا تھا۔

سگریلکا نے کشمیری طلبا کی آبائی علاقوں میں واپسی کے مکمل انتظامات نہ ہونے تک انہیں رہنے کے لیے محفوظ جگہ فراہم کی، ان کا اپنی فیملی کی طرح خیال رکھا اور اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ وہ بحفاظت اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔

 

کشمیری طلبا نے اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کے بعد جب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر 26 سالہ خاتون صحافی کا شکریہ ادا کیا تو جنونی ہندوؤں نے انہیں اپنے نشانے پر رکھ لیا۔

 

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ان کے لیے انتہائی بے ہودہ الفاظ استعمال کیے گئے، طرح طرح کی دہمکیاں دی گئیں اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر انہیں انسانیت کی خاطر بے گناہوں کی مدد کے الزام پر نہ صرف پاکستانی ایجنٹ قرار دے دیا گیا بلکہ انہیں آبائی وطن چھوڑنے کی بھی وارننگ دی گئی۔

بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ وہ معمولی سے واقع پر بھی اپنے ہی ہم وطن کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر انہیں وطن چھوڑنے کی دھمکی دے دیتے ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان مخالفت کے حوالے سے جنونی ہندوؤں کی تقسیم سیاسی بنیادوں پر نہیں ہے بلکہ مذہب کی بنیاد پر وہ نفرت کے الاؤ میں دہکتے ہیں۔ انتہا پسند جنونی ہندو بی جے پی اور کانگریس سمیت بھارت کی تمام ہی سیاسی جاعتوں کا حصہ ہیں۔

نوجوت سنگھ سدھو جو کانگریس سے تعلق رکھتے ہیں جب پاکستان سے واپس بھارت گئے تو سب سے پہلے ان سے نفرت کا اظہار خود کانگریسی رہنماؤں کی جانب سے کیا گیا حالانکہ وہ کرتارپور راہداری کے حوالے سے اہم ترین پیشرفت کراکر بھارت پہنچے تھے جو سکھوں کا دیرینہ مسئلہ تھا۔

 

نفرت اور غصے کی آگ میں دہکتے جنونی ہندو انہیں جہاں الفاظ کی ’گولہ باری‘ سے ’چھلنی‘ کرنے کی کوشش کررہےہیں تو وہیں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان کی ہمت، جرات اور انسانیت سے ان کے لگاؤ کو سلام پیش کررہے ہیں۔

 

دلچسپ امر ہے کہ جنہیں دھمکیاں ملتی ہیں انہیں ’پاکستانی‘ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے وطن میں خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اورباقاعدہ پاکستان آنے کی پیشکش بھی کردیتے ہیں۔

سگریلکا کسو کو جب ایک جنونی ہندو کی جانب سے ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے اسے جواب دیا کہ ایک گھر میں جب بات ہوتی ہے تو اختلاف رائے بھی پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے معنی یہ قطعی نہیں ہوتے ہیں کہ کوئی اپنا گھر ہی چھوڑ دیتا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پرانہوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انہیں جان سے مارنے کی دہمکی دی گئی ہے اور یا یہ کہ ان کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔

اطلاعات کے مطابق ’نیوز کلک‘ کی رپورٹر سگریلکا کسو کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں اور ان کی جان کو سخت خطرات لاحق ہیں۔

بھارتی پنجاب کے وزیراورکانگریسی رہنما نوجوت سنگھ سدھو بھی جب پاکستان سے بھارت گئے تھے تو جنونی انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے ان کے بھی سر کی قیمت لگادی گئی تھی۔

سابق بھارتی کرکٹر کی اہم شناخت ’کپل شرما شو‘ سے بھی انہیں اسی لیے علیحدہ کروا دیا گیا ہے کہ انہوں نے مودی سرکار کی جانب سے چلائی جانے والی نفرت انگیز مہم کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا۔

بھارتی خاتون صحافی سگریلکا کسو کا مشورہ ہے کہ اس چیز کو زیادہ نہ اچھالا جائے کیونکہ اس طرح ان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ صحافی ہیں اورانہیں صحافی ہی رہنے دیا جائے۔

مبصرین کے مطابق عین ممکن ہے کہ جنونی ہندوؤں نے انہیں واقعی جان سے مارنے کی دہمکی دی ہو لیکن چونکہ انہوں نے رہنا بھارت میں ہے تو ’مصلحتاً‘ وہ کوشش کریں گی کہ یہ بات زیادہ نہ اچھلے کیونکہ اگر ان کے حوالے سے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں کچھ بھی شائع ہوا تو یقیناً ان کی مشکلات بڑھ جائیں گی اورحقیقتاً وہ تکلیف میں آجائیں گی۔


متعلقہ خبریں