حکومت لکھ کر دے اسے قانون سمجھ میں نہیں آتا، سپریم کورٹ

فوٹو: فائل



اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ حکومت لکھ کر دے اسے قانون سمجھ میں نہیں آتا۔ ہر کام عدالت کو ہی کیوں کرنا پڑتا ہے۔

سپریم کورٹ میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کراچی کے آڈٹ سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس گلزار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہرکام عدالت کو ہی کیوں کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ایچ اے حکومت کے اندر ایک حکومت ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آڈٹ نہ کروا کرڈی ایچ اے توہین عدالت کر رہا ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ آڈٹ میں مسئلہ کیا ہے ؟ کیا عدالت حکومت کو قانون پڑھائے گی ؟

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا حکومت سپریم کورٹ کے حوالے کردی گئی ہے ؟

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ کا تھر کول منصوبے کے فرانزک آڈٹ کا حکم

یہ بھی پڑھیں:جامعات کی بھرمار اور ڈگریوں کا کیس، ایچ ای سی سے جواب طلب

ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے وکیل نے سپریم کورٹ سے کیس کی تیاری کے لیے وقت مانگا تو عدالت نے کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

دوسری جانب ٹیلی فون انڈسٹریز ملازمین کی مستقلی سے متعلق کیس میں عدالت نے ٹیلی کام اتھارٹی، حکومت اور ملازمین کو مذاکرات سے پیکج طے کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ ٹیلی کام اتھارٹی سفید ہاتھی بن گیا ہے جب کہ قومی ائر لائن (پی آئی اے) اور اسٹیل مل کی طرح نہ جانے کتنے سفید ہاتھی بغل میں موجود ہیں۔

سپریم کورٹ نے ملازمین کی مستقلی سے متعلق کیس کی سماعت 2 ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔

اس سے قبل سپریم کورٹ نے پی آئی اے کے آڈٹ کا بھی حکم دیا تھا۔

پی آئی اے کی آڈٹ رپورٹ میں ادارے کی تباہی کے محرکات سامنے آئے تھے۔ جس کے مطابق ڈیلی ویجززکی بھرتی پر2409 ملین اورپائلٹس کی زائدادائیگیوں پر1437 ملین روپےخرچ کیے گئے جب کہ 457 جعلی ڈگریوں والے افسر اور ملازمین کی بھرتیوں سے کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوا۔


متعلقہ خبریں