22 اے اور 22 بی واپس نہیں لیا گیا، سیکریٹری قانون کی وضاحت

فائل فوٹو


اسلام آباد:سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے  وضاحت کی ہے کہ 22 اے اور 22 بی واپس نہیں لیا گیا۔ سیکریٹری قانون کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیاہے کہ پہلے بھی یہ قانون تھا کہ ایس ایچ او کے خلاف ایس ایس پی کو درخواست دیتے تھے تاہم پہلے فیصلہ ہوئےبغیر لوگ عدالت میں آجاتے تھے۔ اب ہم نے یہ کہا کہ ایس ایس پی کو فیصلہ کرنے دیاجائے۔ اس کے بعد عدالت سے رجوع کریں۔

سیکریٹری قانون نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وکلاء کمیٹی کے فیصلے کو درست طور پر نہیں سمجھ سکے۔ عدلیہ کے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے اختیار پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ متاثرہ شخص ایس پی شکایات داد رسی فورم سے فیصلہ لینے کے بعد عدلیہ سے رجوع کر سکتا ہے۔جسٹس آف پیس کے طریقہ کار کو ریگولیٹ کیا گیا ہے۔ایس پی شکایات داد رسی فورم پرچہ درج نہ کرنے پر متعلقہ ایس ایچ او سے باز پرس بھی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کے اندر احتساب کا نظام بنا دیا گیا ہے۔ایس پی شکایات داد رسی فورم کو متاثرہ شخص کی درخواست پر ایک ہفتہ میں فیصلہ کرنا ہو گا۔

ایس پی شکایات فورم پرچہ درج کرنے کا فیصلہ نہیں دیتا تو عدلیہ کے لیے بھی 22 اے اور بی کا فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا بار کونسل کو بھی قومی عدالتی پالسی ساز کمیٹی کے فیصلے پر وضاحت بھیجوائیں گے۔بار کونسل نے کمیٹی کے فیصلہ کی درست تشریح نہیں کی۔

سیکریٹری قانون نے کہا کہ عدلیہ کا جسٹس فار پیس کے لیے 22 اے اور بی کا اختیار اپنی جگہ موجود ہے۔ کمیٹی کے فیصلے میں 22 اے اور بی کے اختیار میں طریقہ کار کی تبدیلی کی گئی ہے۔

سیکرٹری لاء کمیشن ڈاکٹر رحیم اعوان نے 12مارچ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ عدلیہ اب 22 اے اور بی کی درخواستوں کو پذیرائی نہیں دے گی۔ یہ فیصلہ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا ہے ۔ اس اقدام سے ماتحت عدلیہ پر پانچ لاکھ کیسز کا بوجھ کم ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اصلاحات کے تحت ’’ایس پی شکایت داد رسی میکانزم ‘‘وضع ہو چکا ہے۔ متاثرین کو ایف آئی آر کے اندراج نہ ہونے پر متعلقہ ایس پی کے پاس ہی جانا ہو گا۔ اگرایس پی شکایات میکانزم سے سائل کی داد رسی نہ ہو تو 22 اے کی درخواست عدلیہ میں دائر کی جا سکے گی۔

یہ بھی پڑھیے:’ عدلیہ اب 22 اے اور بی کی درخواستوں کو پذیرائی نہیں دے گی‘

یاد رہے کہ قانون کی شق 22 اے کے تحت درخواست قابل دست اندازی جرم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ایف آئی آر کے اندراج میں جان بوجھ کر تاخیر کرنے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کو دی جاتی ہے۔

اسی طرح قانون کی شق 22 بی کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کسی بھی واقعے کی انکوائری کرکےرپورٹ طلب کرتا ہے۔

سیکرٹری لا کمیشن نے کہا کہ سپریم کورٹ میں فوجداری کیسز کی تعداد صرف 694 رہ گئی ہے۔ خصوصی عدالتوں اور ٹریبونلز میں ججز کی تقریاں وقت پر نہیں ہوتیں ۔ ماتحت اور خصوصی عدالتوں میں 1388 آسامیاں خالی ہیں۔ خصوصی عدالتوں میں ججز کی تقرریاں نہ ہونے پر متلقہ چیف جسٹس صاحبان نےتشویش کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:ملک کی اعلیٰ عدالتیں اور زیر التوا مقدمات

یہ بھی پڑھیے:22 کروڑ کی آبادی کے لیے صرف 3 ہزار ججز ہیں، چیف جسٹس پاکستان

سیکرٹری لا کمیشن کے مطابق ماڈل کورٹس کا قیام فوری انصاف کی فراہمی کے لیے کیا گیا ہے۔ ماڈل کورٹس پرانے فوجداری اور منشیات کے کیسز سنیں گی۔ ماڈل کورٹس میں کاروائی روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔ خصوصی عدالتوں میں کارروائی کو ملتوی نہیں کیا جائے گا۔

 


متعلقہ خبریں