پارلیمان کے معاملات کو عدالتوں میں نہ لائیں، اسلام آباد ہائیکورٹ


اسلام آباد:چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہاہے کہ  پارلیمان کے معاملات کو عدالتوں میں نہ لائیں۔ پارلیمانی معاملات عدالت میں لانا پارلیمنٹ اور عدالت دونوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ جو اختیارات رکن اسمبلی کو حاصل ہیں وہ اس عدالت کے پاس بھی نہیں۔

انہوں نے یہ ریمارکس سی پیک کے 24 ارب روپے ارکان قومی اسمبلی کو دینے کے  معاملے کی سماعت کے دوران دیے۔۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے ن لیگی رہنما محسن رانجھا کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا۔

سماعت شروع ہوئی تو لیگی رکن قومی اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا نے دلائل دیے۔ انہوں نے اپنے دلائل میں کہا سی پیک کے منصوبوں سے 24 ارب روپے نکال کر ارکان اسمبلی کو فراہم کئے گئے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ رکن قومی اسمبلی ہیں آپ کو پارلیمنٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا ۔یہ عدالت چاہتی ہے پارلیمنٹ کی بالادستی برقرار رہے۔ یہ تفصیلات آپ پارلیمنٹ کے ذریعے بھی حاصل کر سکتے تھے۔

محسن شاہنواز رانجھا نے کہا اٹھارہ روز گزر گئے مگر وزارت منصوبہ بندی نے جواب نہیں دیا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہاایسی درخواست عدالت سنتی ہے تو پارلیمنٹ کی بالادستی پر حرف آئے گا۔

یہ بھی پڑھیے:اس وقت فیصلے پارلیمان میں نہیں ہورہے،شازیہ مری

یہ بھی پڑھیے:’پارلیمان کو چلانا حکومت کی ذمہ داری‘

محسن رانجھا نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے وزارت سے بطور رکن قومی اسمبلی تفصیلات مانگیں جو فراہم نہیں کی گئیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا رکن قومی اسمبلی کے پاس بہت اختیارات ہیں۔ رکن اسمبلی اپنے اختیارات استعمال کرے تو وہ پارلیمنٹ کے لیے اچھا ہے۔ پارلیمان کے معاملات کو عدالتوں میں نہ لائیں۔ پارلیمانی معاملات عدالت میں لانا پارلیمنٹ اور عدالت دونوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ جو اختیارات رکن اسمبلی کو حاصل ہیں وہ اس عدالت کے پاس بھی نہیں۔

محسن شاہنواز رانجھا نے کہا اس معاملے میں حکومت ملوث ہے۔ میرا فرض ہے آئین پاکستان پر مکمل طور پر عملدرآمد ہو۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جو کام پارلیمنٹ سے ہونا چاہیے وہ کام آپ عدالت سے نہ کرائیں۔

محسن شاہنواز رانجھا نے کہا ہم صرف وزارت سے تفصیلات مانگ رہے ہیں۔ محسن شاہنواز رانجھا نے عدالت سے رجوع کررکھا ہے


متعلقہ خبریں