سانحہ ساہیوال، جوڈیشل کمیشن تشکیل کی درخواست مسترد

سانحہ ساہیوال، جوڈیشل کمیشن تشکیل کی درخواست مسترد

فوٹو: فائل


لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواست مسترد کر دی۔

لاہور ہائی کورٹ میں سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار شمیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔

درخواست میں عدالت سے پنجاب حکومت کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کالعدم قرار دینے اور جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی۔

درخواستوں میں وفاقی حکومت، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب پولیس کو فریق بنایا گیا۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ آئی جی پنجاب پولیس امجد جاوید سلیمی اعلیٰ پولیس اہلکاروں اور سی ٹی ڈی حکام کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ آئی جی پنجاب نے اختیار نہ ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پر جے آئی ٹی تشکیل دی۔ جس سے انصاف کی امید نہیں ہے جب کہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے بھی جے آئی ٹی کو تحقیقات روکنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت سے درخواست گزار نے استدعا کی کہ پنجاب ٹربیونلز آف انکوائری آرڈیننس کے تحت ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا جائے اور جے آئی ٹی کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دے کر تحقیقات سے روکا جائے۔ 7 فروری کو وزیر اعظم کو جوڈیشل کمیشن کے قیام کی درخواست دی گئی تھی لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کمیشن ہم نے نہیں بنانا جب کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بھی جوڈیشل کمیشن پنجاب حکومت نے قائم کیا تھا۔

سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ سیل بند لفافے میں عدالت میں پیش کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں سانحہ ساہیوال: مقتولین کو قریب سے گولیاں مارنے کا انکشاف

دوسری جانب سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے ذیشان کی والدہ نے بیٹے کو دہشت گرد قرار دینے کے خلاف درخواست لاہور ہائی کورٹ میں دائر کر دی۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ذیشان کی والدہ نے جوڈیشل کمیشن کی درخواست حکومت کو دی ہے۔

جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ 2 رکنی بینچ کے روبرو پیش کر دی گئی۔ چیف جسٹس سردار شمیم نے ریمارکس دیے کہ ہم اس رپورٹ کو سیشن جج کو بھیج دیتے ہیں۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے جوڈیشل کمیشن پر بحث کی اجازت دے دیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ اگر حکومت نہ بنانا چاہے تو عدالت کیسے حکم دے سکتی ہے۔

وکیل بیرسٹر احتشام نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے پرانے فیصلوں کو دیکھ کر اسکا فیصلہ کرنا ہے۔

عدالت نے ذیشان سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔


متعلقہ خبریں