2018 میں بھی سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم نجی اداروں سے بہتر نہ ہو سکا


لاہور: محکمہ ایجوکیشن پنجاب میں اصلاحات کے دعوے پورے نہ ہوئے،2018 میں بھی سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم نجی اداروں سے بہتر نہ ہو سکا،ادارہ تعلیم و آگاہی کی سالانہ تعلیمی اثر ( Annual Status of Education Report) رپورٹ نے پول کھول دیا۔

ادارہ تعلیم وآگاہی کی جانب سے جاری اثر رپورٹ 2018 کے مطابق صوبہ کے 1070 دیہاتوں کے 21 ہزار370 گھر، 57 ہزار 349 بچوں سے معلومات لی گئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں گیارہ فیصد بچے اسکول چھوڑ گئے۔ جن میں 5.5 فیصد لڑکیاں اور 5.5 فیصد ہی لڑکے تھے۔ اس وقت دیہاتوں کے 62 فیصد بچے سرکاری، 38 فیصد پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 20 مارچ سے پنجاب میں اسکولوں کی داخلہ مہم کا آغاز

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پانچویں جماعت کے30 فیصد بچے انگریزی، اردو اور ریاضی کے سوال حل نہیں کرسکتے تاہم سرکاری اسکولوں کی نسبت پرائیویٹ اسکولوں کا معیار تعلیم بہتر رہا۔

رپورٹ کے مطابق پرائمری پاس ماؤں کی شرح میں پانچ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ دوسری جانب دیہاتوں کے کئی سرکاری اسکولوں اورنجی اسکولز چار دیواری سے محروم ہیں اور یہی نہیں دیہاتوں کے کئی سرکاری اور نجی اسکولز باتھ روم کے استعمال سے بھی محروم ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پانچ فیصد سرکاری اسکولز میں پینے کے پانی کی سہولت موجود نہیں لیکن دیہات کے 78 فیصد گھروں میں موبائل کا استعمال کیا جاتا ہے۔49 فیصد واٹس اپ جبکہ 70 فیصد میسج کا استعمال کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دیہی پنجاب کے18 فیصد گھرانے سولر پینل کا استعمال کررہے ہیں۔

اثر رپورٹ میں سیکرٹری سکولز ایجوکیشن کیپٹن ر محمد محمود مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے.


متعلقہ خبریں