پاکستانی ایٹمی پروگرام امریکی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے، پومپیو

چین: پومپیو سمیت ٹرمپ انتظامیہ کے 28 افراد پر پابندی لگادی

واشنگٹن: باالآخر بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکی سلامتی کو درپیش دنیا کے پانچ بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔

یہ اعتراف امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو نے اتوار کو دیے گیے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نامزد موجودہ سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو یہ ذمہ داری ادا کرنے سے قبل امریکی سی آئی اے کے سربراہ تھے۔

انہوں نے اپنی نامزدگی کے فوری بعد منصب کا حلف اٹھانے سے بھی پہلے شمالی کوریا کا خفیہ دورہ کرکے ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کا راستہ ہموار کیا تھا۔ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان یہ ملاقات کئی دہائیوں کے بعد ہوئی تھی۔

ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی زد میں رہنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے مائک پومپیو اس لحاظ سے بڑے مداح ہیں کہ کچھ عرصہ قبل امریکی صدر کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے اعلی امریکی عہدیداروں کو انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ  حکومتی مناصب سے علیحدگی اختیار کرلیں۔

مائک پومپیو نے ایک اور موقع پر دنیا کو یہ بتا کرورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیا ورلڈ آرڈر لکھ رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اتوار کو ایک انٹرویو میں امریکی سلامتی کو درپیش پانچ بڑے مسائل بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غلط ہاتھوں میں لگ جانے کا خدشہ ان میں سے ایک ہے۔

پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کا انتظام ہر لحاظ سے عالمی معیار کا ہے اس پر کوئی دو رائے نہیں ہے۔ بین الاقوامی ادارے اس پراپنی رپورٹ بھی دے چکے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے مطابق امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو نے دعویٰ کیا کہ ہم نے پاکستان کے خلاف جو ایکشن لیے ہیں وہ ہم سے پہلے کسی حکومت نے نہیں لیے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو وہ بہت سنجیدہ لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے خود اپنے دوستوں کو اس لڑائی میں کھویا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی شخص یا ملک سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں جس کا اعتراف خود امریکی حکام سمیت عالمی رہنما کرتے آئے ہیں۔

افواج پاکستان اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 60 ہزار کے قریب افراد کی جانوں کا نذرانہ اہل پاکستان نے دیا ہے اور ساتھ ہی اربوں روپے کا خسارہ بھی اٹھا یا ہے۔

مائک پومپیو کا کہنا تھا کہ ہم نے گیارہ ستمبر کے حملوں سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ہم نے پاکستان پر اس سلسلے میں مزید اقدامات کرنے کے لیے زور ڈالا ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ جنوری میں امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے اپنے دورہ پاکستان میں تسلیم کیا تھا کہ پاک فوج نے اٹھارہ ماہ میں جو کام کیا ہے وہ امریکہ کی اٹھارہ سال سے خواہش تھی۔ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ امریکہ کی یہ غلطی ہے کہ پاکستان کے لیے پالیسی بار بار تبدیل کرتا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ’لو اور دو‘ کے اصول کے تحت تعلقات غلط ہیں۔

امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہاں ہونے والی ملاقاتوں سے آگاہ کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ ملٹری آپریشن گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ عبوری سے اسٹریٹجک تعلقات کی طرف جانا ہو گا۔

پاکستانی اقدامات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی سرحد کے اطراف فینسنگ ایک اچھا اقدام ہے اور سرحد مخفوظ کرنے کی پاکستان کے پاس حکمت عملی بھی ہے لیکن کاش! ایسا افغانستان میں بھی ہوتا۔

امریکی سینٹر لنڈسے گراہم نے کہا تھا کہ میں نے مثبت سمت میں چیزوں کو دیکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جسے مزید بہتر بنانا ہے اورحالات میں استحکام ہمارے بھی مفاد میں ہے۔

ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں امریکی سینیٹرکا کہنا تھا کہ ہم برطانیہ کو یہ نہیں کہتے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے اور جوابی طور پر آپ ہمیں کچھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی پارٹنر شپ ہم پاکستان کے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں جس میں لین دین نہ ہو۔

وی او اے کے مطابق جب امریکہ کے سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ ان کی حکومت افغانستان میں ایک حتمی حل کے لیے کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ  وہ افغانستان میں سیاسی اتفاق رائے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

ایک سوال پر مائک پومپیو نے کہا کہ زلمے خلیل زاد ابھی اسی سلسلے میں چھ سے آٹھ دن دوحہ میں مذاکرات کے لیے گئے تھے اور کل ہی لوٹے ہیں۔ ان کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

امریکی سیکریٹری خارجہ نے واضح کیا کہ اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ دونوں فریق ایک دوسرے سے بات کریں۔

افغان طالبان ابتدا سے ہی افغان حکومت سے مذاکرات کرنے پہ تیارنہیں ہیں اوروہ اس سے تسلسل کے ساتھ انکار کرتے آئے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے متعلق انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ وہ اس طویل جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ اس کا کوئی ایسا حل نکلے جس سے امریکہ کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کا خدشہ نہ رہے۔

وائس آف امریکہ کے مطابق حالیہ دنوں میں افغان فورسز پر کیے جانے والے حملوں میں طالبان نے 50 افغان فوجیوں کو اغوا کر لیا تھا جبکہ اس سے ایک ہفتہ پہلے بھی 70 افغان فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان حملوں سے افغان اور اتحادی فوجیں کمزوری کی پوزیشن پر آگئی ہیں۔

مائک پومپیو نے دعویٰ کیا کہ وہ جانتے ہیں کہ امن مذاکرات کی ٹیبل پر کون بیٹھا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ کو مزید محفوظ بنائیں۔

آئی ایس آئی کے مرحوم سربراہ جنرل (ر) حمید گل کئی سال پہلے کہا کرتے تھے کہ امریکہ سمیت دیگر عالمی قوتوں کے لیے ایران بہانہ، افغانستان نشانہ اور پاکستان ٹھکانہ ہے۔ وہ اس ضمن میں تسلسل کے ساتھ پاکستانی اداروں، حکام اور لوگوں کو بتاتے تھے کہ انہیں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیائے اسلام کی واحد ایٹمی طاقت اغیار کی نگاہ میں کھٹکتی بہت ہے۔

جنرل (ر) حمید گل اپنے اس جملے کو سیاسی پیشن گوئی سے تعبیر کرتے تھے حالانکہ اس کی وجہ سے ان پربنیاد پرستی سمیت دیگر بہت سے سنگین نوعیت کے الزامات بھی عائد کیے گئے مگر انہوں نے کبھی پرواہ نہ کی اور پوری قوت سے اپنے لوگوں کو ’جگانے‘ کی کوشش کرتے رہے۔


متعلقہ خبریں