وکلا نے 22 اے اور بی بارےکیا گیا فیصلہ مستردکردیا، ہڑتال کا اعلان


پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے کہ بائیس اے اور بی بارے نیشنل جوڈیشل پالیسی کےتحت کیے گئے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس امجد شاہ نے کہا کل اور پرسوں مکمل ہڑتال ہو گی۔ اس کے بعد ہر ہفتے ایک روز ہڑتال کی جائے گی۔

وائس چیرمین امجد شاہ نے کہا کہ ایک ہی فیصلے سے 70 ہزار کے لگ بھگ کیسز کو اٹھا کر پھینک دیا گیا ہے۔ تمام دوستوں نے فیصلہ کیا ہے کہ بدھ کو کوئی عدالت میں پیش نہیں ہو گا۔ ہم اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم لاہور میں آئندہ ایک کنونشن کا انعقاد کریں گے اور تجاویز بھی دیں گےجب تک بائیس اے اور بی کے فیصلے کو واپس نہیں لیا جاتا تب تک کوئی بات نہیں ہو گی۔ یہ ادارہ کسی ایک جج کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ادارہ ہے۔ اس ادارے پر انگلی اٹھتی ہے تو ہمیں دکھ ہوتا ہے۔

امجد شاہ نے کہا جن ججوں کے خلاف آرٹیکل 209 کے ریفرنسز دائر ہیں ان کو عدالت میں نا بیٹھنے دیا جائے۔ آرٹیکل 175 میں ترمیم کر کے ججوں اور وکیلوں کی تعداد کو برابر کیا جائے۔ پشاور، لاہور، بلوچستان اور سندھ میں ججوں کی کئی آسامیاں خالی ہیں۔

ہم پارلیمنٹ اور عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صحیح قانون سازی کی جائے۔ہم نے قانون سازی کے لیے کچھ پیرامیٹرز دیے جن پر غور نہیں کیا گیا۔ ہم آج کے بعد بھرپور طریقے سے احتجاج پر جا رہے ہیں۔

امجد شاہ نے کہا کل اور پرسوں مکمل ہڑتال ہو گی۔ اس کے بعد ہر ہفتے ایک روز ہڑتال کی جائے گی۔ کالے کوٹ والے وکیل درخواست گزاروں کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں ٹھنڈے اے سی کمروں میں بیٹھے ججوں کو ان کی تکلیف کا احساس نہیں ہے

یہ بھی پڑھیے: 22 اے اور 22 بی واپس نہیں لیا گیا، سیکریٹری قانون کی وضاحت

یاد رہے کہ  رواں ماہ 12 مارچ کو سیکرٹری لاء کمیشن  ڈاکٹر رحیم اعوان  نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ عدلیہ اب 22 اے اور بی کی درخواستوں کو پذیرائی نہیں دے گی۔ یہ فیصلہ قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا ہے ۔ اس اقدام سے ماتحت عدلیہ پر پانچ لاکھ کیسز کا بوجھ کم ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اصلاحات کے تحت ’’ایس پی  شکایت داد رسی میکانزم ‘‘وضع ہو چکا ہے۔ متاثرین کو ایف آئی آر کے اندراج نہ ہونے پر متعلقہ ایس پی کے پاس ہی جانا ہو گا۔ اگرایس پی شکایات میکانزم سے سائل کی  داد رسی نہ ہو تو 22 اے کی درخواست عدلیہ میں دائر کی جا سکے گی۔

یاد رہے کہ قانون کی شق  22 اے کے تحت درخواست قابل دست اندازی جرم کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ایف آئی آر کے اندراج میں جان بوجھ کر تاخیر کرنے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کو دی جاتی ہے۔

اسی طرح قانون کی شق 22 بی کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج  کسی بھی واقعے کی انکوائری کرکےرپورٹ طلب کرتا ہے۔

سیکرٹری لا کمیشن نے کہا کہ سپریم کورٹ میں فوجداری کیسز کی تعداد صرف 694 رہ گئی ہے۔ خصوصی عدالتوں اور ٹریبونلز میں ججز کی تقریاں وقت پر نہیں ہوتیں ۔ ماتحت اور خصوصی عدالتوں میں 1388 آسامیاں خالی ہیں۔ خصوصی عدالتوں میں ججز کی تقرریاں نہ ہونے پر متلقہ چیف جسٹس صاحبان نےتشویش کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:ملک کی اعلیٰ عدالتیں اور زیر التوا مقدمات

یہ بھی پڑھیے:22 کروڑ کی آبادی کے لیے صرف 3 ہزار ججز ہیں، چیف جسٹس پاکستان

سیکرٹری لا کمیشن کے مطابق ماڈل کورٹس کا قیام فوری انصاف کی فراہمی کے لیے کیا گیا ہے۔ ماڈل کورٹس پرانے فوجداری اور منشیات کے کیسز سنیں گی۔ ماڈل کورٹس میں کاروائی روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔ خصوصی عدالتوں میں  کارروائی کو ملتوی نہیں کیا جائے گا۔


متعلقہ خبریں