افغان جنگ میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے

افغان جنگ میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے

فوٹو: رائٹرز


کابل: طالبان اور امریکی اتحادیوں میں جاری افغان جنگ نے سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کیا ہے۔ جنگ میں  بچوں کو مارا گیا، یتیم کیا گیا اور فروخت کیا گیا ہے۔

رائٹرز کےمطابق بلخ صوبے کے رہائشی محمد خان نے اپنے 40 دن کے بچے کو اس لیے فروخت تاکہ وہ دوسرے چھ بچوں کو کھانا فراہم کر سکے۔ محمدخان نے اپنا بچہ 70 ہزار افغانی روپے کے عوض ہمسائے کو فروخت کیا۔

افغانستان میں نصف سے زائد آبادی کی عمر 15 سال سے کم ہے اور 17 سال سے جاری جنگ میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ نے رواں برس ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق 2018 افغانستان میں 927 بچے مارے گئے جو کہ دستیاب ریکارڈ کے مطابق ایک سال میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے کارکنوں کے مطابق افغانستان میں یتیم بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور انہیں گلیوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

افغانستان میں یونیسیف کے ترجمان  عدیل خودر کا کہنا ہے کہ جون 2018 میں شائع یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 37 لاکھ بچے اسکول نہیں جارہے۔ سیکیورٹی، ہجرت اور غربت کے سبب بچے اسکول نہیں جا رہے۔

یوتھ ہیلتھ اینڈ ڈیویپلمنٹ کے پراجیکٹ منیجر یاسین محمدی نے رائٹر کو بتایا کہ افغانستان میں بچہ بازی اور لڑکوں کی اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان کے دیہی علاقوں سے روزگار کمانے کیلئے بڑے شہروں میں آنے والے بچے اس قسم کی سرگرمیوں ملوث ہوجاتے ہیں۔ بچہ بازی پر صرف ایک سال کیلئے پابندی عائد کی گئی تھی اور چند لوگوں کو ہی سزا سنا ئی گئی ہے۔

طالبان کے آخری پانچ سالہ دور اقتدار میں افغان لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد تھی۔ افغانستان میں امدادی سرگرمیاں انجام دینے والی تنظیمیوں کی طرف سے خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے اگر طالبان حکومت میں آگئے تو ہوسکتا ہے 1996 سے 2001 والا دور واپس آجائے۔

یتیم بچوں کی تعلیم اوردیکھ بھال کرنے والی ایک تنظیم کی ڈائریکٹر پشتانہ رسول نے رائٹر کو بتایا کہ طالبان بچوں اور لوگوں پر توجہ نہیں دیتے تھے آج کی نسبت اس وقت حالات زیادہ خراب تھے۔

افغانستان میں آشیانہ تنظیم کے ڈائریکٹر انجینئر محمد یوسف کا کہنا ہے کہ طالبان کے زیرتسلط شاید خواتین کو کام کی اجازت نہ دی جائے اور بچوں کی صورتحال بھی مزید ابتر ہوسکتی ہے۔

دوسری طرف طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رائٹرز کو بتایا کہ بیرونی حملہ آوروں کی وجہ سے بچوں کی صورتحال زیادہ خراب ہوئی ہے، ہم نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں یتیم بچوں کی مدد کیلئے تنظیمیں بنا رکھی ہیں۔


متعلقہ خبریں