مشال قتل کیس، 2 ملزمان کو عمر قید، 2 بری



پشاور: پشاور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالب علم مشال خان قتل کیس کے دیگر 4 ملزمان کا فیصلہ سنا دیا۔ 2 ملزمان کو عمر قید اور 2 کو بری کر دیا گیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان میں سے عارف اور اسد کو عمر قید کی سزا سنائی جب کہ صابر مایار اور اظہار کو بری کر دیا۔

تفصیلی فیصلے  کے مطابق کیس میں مرکزی ملزمان محمد عارف اور اسد ضیاء کو مجموعی طور پر 63 ، 63 سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ پینتیس صفحات پر مشتمل فیصلے کے مطابق دونوں مرکزی ملزمان کو سزا مختلف دفعات کے تحت دی گئی ہے۔عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ قانون کے مطابق تمام سزاوں کی مدت ایک ساتھ شروع ہوگی،کیس میں دونوں ملزمان کے خلاف مشال خان پر زخمی حالت میں تشدد کرتے دیکھنے کے ثبوت ثابت ہوئے۔ عدالت نے ملزمان صابر مایار اور اظہار اللہ کے خلاف ثبوت ناکافی قرار دیے ۔

پشاور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مشال خان قتل کیس میں مفرور ہونے والے 4 ملزمان کا فیصلہ 16 مارچ کو سنانا تھا تاہم تحریری فیصلے میں تاخیر کے باعث 21 مارچ تک فیصلہ مؤخر کر دیا گیا تھا۔

کیس میں 4 مرکزی ملزمان کے خلاف مجموعی طور پر 46 گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے تھے۔

اس سے قبل انسداد دہشت گردی عدالت نے عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالب علم مشال خان کے کیس کا فیصلہ 12 مارچ کو محفوظ اور 16 مارچ کا سنانے کا اعلان کیا تھا۔

مشال کے والد نے ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا، اقبال خان نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے ثابت ہوگیا میرا بیٹا بے قصور تھا جب کہ بری ہونے والے ملزموں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔


یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت مشال خان قتل کیس کے 2 ملزمان کی درخواست ضمانت خارج جب کہ ایک کی کالعدم قرار دے چکی ہے، ان میں مرکزی ملزم اسد بھی شامل ہے۔ دیگر ملزمان میں شامل صابر مایار، اظہاراللہ عرف جونی اوراسد نے کیس کا فیصلہ سامنے آنے پر خود گرفتاری دی تھی۔

انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے مشال خان کیس میں ایک ملزم کو سزائے موت اور 4 کو عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت ایبٹ آباد نے مشال خان قتل کیس میں 25 ملزمان کو چار چار سال قید کی سزائیں دی تھیں تاہم ملزمان نے اپنی سزاؤں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ جس کے بعد گزشتہ برس فروری کے آخر میں عدالت نے مشال خان قتل کیس میں 25 ملزمان کی سزائیں معطل کردی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے:مشال خان قتل کیس: دو ملزمان کی درخواست خارج، ایک کی ضمانت کالعدم

یاد رہے کہ سپریم کورٹ بھی  مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کو نمٹا چکی ہے۔

سپریم کورٹ کے مطابق ملزم کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہوچکی ہے، جس کے بعد ازخود نوٹس کو مزید چلانے کی ضرورت نہیں بنتی۔

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ صوبائی حکومت نے بری ہونے والے ملزمان کے خلاف اپیل دائر کررکھی ہے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں توہین رسالت کے الزام میں قتل ہونے والے مشال خان کے واقعے پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

مشال خان قتل کا واقعہ

مشال کے قتل کا واقعہ 13 اپریل 2017 کو عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کیمپس میں پیش آیا تھا۔

طلبا نے توہین مذہب کا الزام لگا کرصوابی کے رہائشی، ماس کمیونیکیشن کے طالبعلم مشال خان کو بدترین تشدد اور فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

مشال قتل کیس میں نامزد 60 میں سے 57 ملزمان کو پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ جن کے خلاف مشال خان کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ہری پور جیل میں چلایا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رواں سال 7 فروری کو ملزمان کے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت نے مشال خان کے قتل میں ملوث گرفتار 57 طلبا میں سے 31 کو سزا سنائی اور 26 کو بری کردیا گیا جب کہ 3 ملزمان کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔

ملزمان میں شامل مرکزی ملزم عمران علی کو سزائے موت سنائی گئی، 5 ملزمان کو 25 سال قید جب کہ 25 ملزمان کو 4 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ 

مشال خان کی والد کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے مقدمہ ایبٹ آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد انسداد دہشت گردی عدالت نے مقدمے کی سماعت ہری پور جیل میں کی تھی۔


متعلقہ خبریں