یوم پاکستان اور سول ایوارڈز

یوم پاکستان اور سول ایوارڈز

فائل فوٹو


اسلام آباد: دنیا بھر میں ’ریاستیں‘ غیرمعمولی خدمات پر اپنے شہریوں کو اعزازات سے نوازتی ہیں۔ ریاستیں ان غیر ملکی شہریوں کو بھی اعزازات دیتی ہیں جنہوں نے ان کے لیے غیر معمولی خدمات سرانجام دی ہوں۔

پوری دنیا میں ریاستوں کی جانب سے اعزازات کا ملنا بلاشبہ باعث عزت و افتخار سمجھا جاتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ’پاکستان سول ایوارڈ‘ کے نام سے چھ اقسام کے ایوارڈز دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ ملک کے معرض وجود میں آنے کے گیارہ سال بعد 1958 میں ہوا تھا۔

1958 میں جو فیصلہ کیا گیا تھا اس کے تحت ’اعزازبرائے پاکستان، برائے شجاعت، برائے امتیاز، برائے قائد اعظم، برائے خدمت‘ اور’ صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی‘ شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نشان پاکستان کی کہانی

اس وقت کے فیصلے کے تحت ہر اعزاز کے مزید چار درجے متعین کیے گئے تھے۔ ترتیب کے اعتبار سے ’نشان امتیاز‘ سب سے بڑا اعزاز قرار پایا ۔ اس کے بعد بالترتیب ، ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز اورتمغہ امتیاز‘ قرار دیے گئے۔

صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی، آرٹ، ادب، سائنس، کھیل اور نرسنگ کے شعبوں میں غیر معمولی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔ ناموں کی نامزدگی کا اعلان ہر سال 14 اگست کو ہوتا ہے لیکن اعزاز 23 مارچ کو عطا کیا جاتا ہے۔

نشان شجاعت، ہلال شجاعت، ستارہ شجاعت، تمغہ شجاعت، اور صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی کے ساتھ ایوارڈ یافتگان کو معقول رقم بھی دی جاتی ہے۔

ایوراڈ برائے شجاعت چاروں درجوں میں بہادری اورغیر معمولی حالات میں انسانی زندگیوں کو بچانے کے سلسلے میں انجام دی جانے والی خدمات کے صلے میں ملتے ہیں۔

دیگر درجوں میں اعزازت میڈیسن،انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، فلسفہ، تاریخ، تعلیم اور ادب کے حوالے سے کی جانے والی ریسرچ  پر دیے جاتے ہیں۔

حکومتی اداروں میں خدمات انجام دینے والے سرکاری ملازمین اورغیر ملکی شہریوں کو بھی ایوارڈ ملتے ہیں۔ اس کے لیے معیار یہ مقرر ہے کہ انہوں نے پاکستان کے لیے غیر معمولی خدمات سر انجام دی ہوں۔

پہلا تمغہ برائے حسن کارکردگی مغربی پاکستان میں  ابوالاثرحفیظ جالندھری، مشرقی پاکستان میں ڈاکٹر شاہین الدولہ اور جسیم الدین کو دیا گیا۔ سال 1959 تھا۔

تمغہ برائے حسن کارکردگی اس کے بعد صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، شاہد احمد دہلوی، ابوالفضل، مولانا صلاح الدین احمد، رئیس احمد جعفری، عاشق حسین بٹالوی اور احمد ندیم قاسمی سمیت دیگر اہل قلم  کو عطا ہوئے۔

جنرل محمد ایوب خان کے دور حکومت میں یہ سلسلہ شروع ہوا کہ علمی، ادبی، سائنسی، تاریخی میدانوں میں تحقیق کرنے والوں کے علاوہ انسانی جانوں کو بچانے کی کوشش میں اپنی زندگی داؤ پرلگانے والے باہمت افراد کی ستائش سرکاری سطح پرکی جانے لگی۔

اس ضمن میں حکومت نے اعزازات دیے جانے کی منظوری دی۔

صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی کی نامزدگی کے لیے کیبنٹ ڈویژن ہر سال دسمبر میں صوبائی حکومتوں کے مختلف اداروں کے سربراہان، سیکرٹریز اور کمشنرز کو خط لکھتی ہے۔

ایوارڈ کے اعلان سے قبل حکومت پاکستان متعلقہ شخص سے ایوارڈ وصول کرنے کی رضامندی لیتی ہے اوراس کے ساتھ اس بات کی چھان بین بھی کی جاتی ہے کہ نامزد ہونے والا شخص ملک دشمن سرگرمیوں میں تو ملوث نہیں رہا ہے۔

ایوارڈ کے لیے سفارش کرنے والے ادارے نے اس بات کا حلفیہ بیان بھی جمع کرانا ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کو گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان سول ایوارڈ کسی بھی درجے میں نہیں دیا گیا ہے۔

نشانِ پاکستان کا اجرا 19 مارچ 1957 کو ہوا۔ یہ اعلیٰ ترین اعزاز کسی بھی پاکستانی یا غیر ملکی کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ نشان پاکستان حاصل کرنے والی غیرملکی شخصیات میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور ملکہِ برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے وزرائے اعظم اور اہم شخصیات بھی شامل ہیں۔

ستارہ پاکستان حاصل کرنے والوں میں اسلم خٹک، پروفیسر عبدالسلام، وائس ایڈمرل سید محمد احسان، اے جی کے قاضی، جمیل انصاری، چیف جسٹس بشیرالدین احمد خان، اختر حمید خان، سید ہاشم رضا، ممتاز تارڑ، حبیب اللہ خان خٹک، خالد المینا، ڈگلس ولیم اور صادق خان شامل ہیں۔

ہلال پاکستان حاصل کرنے والوں میں امین احمد چیف جسٹس ڈھاکہ ہائی کورٹ، عبدالواحد آدمجی، ایئرمارشل اصغرخان ، ذوالفقارعلی بھٹو، رتھ فاؤ، نیہان بن مبارک النہیان اور جو بائیڈن سمیت دیگر شامل ہیں۔

تمغہ پاکستان حاصل کرنے والوں میں سرتاج عزیز، اسلم اظہراور احمد حسین اے قاضی سمیت دیگر شامل ہیں۔

نشان امتیاز حاصل کرنے والوں میں مجید نظامی، آغا خان چہارم، ملکہ رتنا، پروفیسر عبدالسلام، عبدالستار ایدھی، فیض احمد فیض، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر اشفاق احمد، دلیپ کمار، سید شریف الدین پیرزادہ، محمد رضی الدین صدیقی، اختر حمید خان، شاہد کریم اللہ، ڈاکٹر عطا الرحمان، حکیم محمد سعید، حبیب جالب، محمد سلمان فاروقی، پروفیسر خورشید احمد، مہدی حسن، سعادت حسن منٹو، خالد احمد قدوائی، منیر احمد خان، رحیم الدین خان، عرفان برنی، جنرل پرویز مشرف، طارق مجید، جنرل راشد محمود، میاں عدنان بن سلطان، شیری رحمان، ایئرمارشل انور شمیم، جنرل راحیل شریف، عاصمہ جہانگیر اور ایڈمرل احمد قمرالزمان شامل ہیں۔

نشان امتیاز حاصل کرنے والوں میں ملکی وغیر ملکی دونوں شامل ہیں اور یہ اعزاز سول و عسکری شخصیات کو دیا جاتا ہے۔

دستیاب معلومات کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی سربراہ عبدالستار ایدھی کو یہ اعزاز 1989 اور 2012 میں دو مرتبہ عطا کیا گیا۔ اسی طرح پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو یہ اعزاز پہلی مرتبہ 1996 اور دوسری مرتبہ 1999 میں دیا گیا۔

ہلال امتیاز حاصل کرنے والوں میں جان شیر خان، عابدہ پروین، جوش ملیح آبادی، عبدالحفیظ کاردار، انصار برنی، ضیا محی الدین، اطہر عباس، اشفاق احمد اور افتخار عارف شامل ہیں۔

نشان شجاعت حاصل کرنے والوں میں ملک سعد، صفت غیور اور اعتزاز حسن شامل ہیں۔

ستارہ امتیاز حاصل کرنے والوں میں ڈاکٹر اے کیو مغل، جان شیر خان، وزیرآغا، سجاد حسین، خواجہ خورشید انور، اسلم اظہر، مستنصر حسین تارڑ، ضیا چشتی اور سرفراز احمد شامل ہیں۔

تمغہ امتیاز حاصل کرنے والوں میں کمانڈر تیمور صالح، لیفٹیننٹ کرنل عرفان الحق، ونگ کمانڈر بلال ناصر، کموڈور دلدار احمد، ایئر کموڈور الطاف احمد طور، کمانڈر فیصل عظیم صدیقی، نورما فرنینڈس، ڈاکٹر محمد بابر اعوان، جنید جمشید، حکیم رضوان، وسیم احمد، ڈاکٹر عبدالباری خان، ڈاکٹر شگفتہ ذوالفقار، حبیب احمد، پروفیسر خان شاہ زمان، پرمیلا لال، عرفان احمد بیگ، محمد عثمان صادق،منہاج محمد خان، شوکت تھانوی، شوکت پرویز، سید میر مہدی شاہ، رحیم اللہ یوسف زئی، سعید اجمل، چودھری فیصل مشتاق، شکیل اوج، تاج محمد تاجی، عشرت ثاقب،پروفیسر شعیب ہاشمی، گلریز تبسم، وزیرافضل، سردار شام سنگھ، علی انور کھوکھر،شبانہ اختر، حدیقہ کیانی، عاطف اسلم، غیوراختر، ڈاکٹر محمد صادق، ڈاکٹر جاوید اقبال، ڈاکٹر محمد اقبال، سحر کامران، لیفٹیننٹ کمانڈر غلام اللہ، منظور نیازی قوال، میڈم نور جہاں، صبا قمر، ڈاکٹر ظفر علی چودھری، ونگ کمانڈر سید شہزادہ عالم، پروفیسر ڈاکٹر طارق محمود، احمد شجاع خان، ڈاکٹر گلزار حسین زاہد، نعمان عابد لاکھانی، نبی بخش خان بلوچ اور قمر زمان شامل ہیں۔


متعلقہ خبریں