مفتی تقی عثمانی قاتلانہ حملے میں محفوظ، گارڈ اور ڈرائیور جاں بحق


معروف عالم دین مفتی  تقی عثمانی قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے، گارڈ اور ڈرائیور جاں بحق۔ پولیس کے مطابق  کراچی  کے علاقے  نیپا چورنگی کے قریب ایک کار پر فائرنگ کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق اور ایک زخمی ہو گیاہے۔

پولیس کے مطابق  دو موٹرسائیکلوں پر سوار نامعلوم افراد  نے یونیورسٹی روڈ پر نیپا چورنگی کے قریب ٹویوٹا کرولا کار پر فائرنگ  کی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ جاں بحق افراد کی عمریں 25 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ کار میں تین افراد سوار تھے۔مولانا شہاب کے زیر استعمال تھی ۔مولانا شہاب کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔  جاں بحق افراد کی شناخت محمد عامر اور صنوبر کے نام سے ہوئی ہے۔

پولیس کے مطابق فائرنگ کا نشانہ بننے والی ایک  گاڑی دارالعلوم کورنگی  کے عالم مفتی محمد تقی عثمانی کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔

مولانا تقی عثمانی قاتلانہ حملے میں محفوظ
کراچی:فائرنگ کے واقعہ کے بعد مفتی تقی عثمانی پولیس کو بیان دیتے ہوئے

مفتی تقی عثمانی نے پولیس کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ ان پر چاروں طرف سے فائرنگ کی گئی مگر خدا نے انہیں محفوظ رکھا ہے۔

آئی جی سندھ کلیم امام نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ مفتی محمد تقی عثمانی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ مفتی  تقی عثمانی کے ساتھ پولیس کی سیکیورٹی موجودتھی۔ فائرنگ کے واقعے میں مفتی تقی عثمانی محفوظ رہے ہیں۔  پولیس کے کانسٹیبل صنوبر نےمولانا محمد تقی عثمانی کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان دی ہے۔ آج کے واقعات کی تحقیقات جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 6ماہ سے تھریٹس موجود تھے ۔

انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب نے کہا کہ فائرنگ کے دو الگ الگ واقعات ہوئے ہیں ہوسکتاہے دونوں واقعات کا محرک ایک ہو۔ انہوں نے کہا کہ دو موٹرسائیکلوں پر 4دہشتگرد ہوسکتے ہیں جنہوں نے باقاعدہ ریکی کے بعد یہ حملہ کیا ہے۔

’دو موٹرسائیکلز پرسوار 4حملہ آوروں نے حملہ کیا،کراچی پولیس چیف‘

کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا کہ  مفتی تقی عثمانی غیر متنازعہ شخصیت ہیں۔ یہ واقعہ فرقہ واریت کی بنیاد پر نہیں ہوا ۔ دو موٹرسائیکلز پرسوار 4حملہ آوروں نے حملہ کیا۔ مفتی تقی عثمانی اپنی فیملی کے ہمراہ کار میں سوار تھے ۔ دوسری گاڑی میں مولانا عامر شہاب سوار تھے وہ شدید زخمی ہیں۔ واقعے میں پولیس گارڈ شہید ہوئے ہیں۔

گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ہم نیوز سے گفتگو میں کہا کہ مفتی تقی عثمانی کو دھمکیاں مل رہی تھیں۔ انہوں نے ایک ملاقات میں تھریٹس بارے آگاہ کیا تھا۔ مفتی تقی عثمانی کو خدشہ تھا کہ انہیں ٹارگٹ کیا جائیگا۔

دوسری جانب ترجمان وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور ملزمان کی فوری گرفتاری کی ہدایت کی ہے۔

مولانا تقی عثمانی قاتلانہ حملے میں محفوظ

وزیر اعظم عمران خان نے معروف عالم دین اور جید فقیہہ مفتی محمد تقی عثمانی پر فائرنگ کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے ۔  وزیر اعظم کی جانب سے مفتی تقی عثمانی کی خیرو عافیت کی خبر پر اطمیان کا اظہار کیا گیا۔ وزیر اعظم نے  فائرنگ کے نیتجے میں مولانا کے سیکیورٹی گارڈ کے جانبحق ہونے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ مفتی تقی عثمانی جیسے جید عالم دین ملک اور عالم اسلام کا اثاثہ ہیں۔ صوبائی حکومتیں علمائے کرام کی سیکیورٹی کو یقینی بنائیں ۔

’مفتی تقی عثمانی پر حملہ گھنائونی سازش ہے، وزیراعظم عمران خان‘

وزیراعظم نے کہا مفتی تقی عثمانی جیسی قابل قدر ہستی پر حملہ گہری اور گھناؤنی سازش ہے جس کو بے نقاب کرنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش برؤے کار لائی جائے۔

پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے کراچی میں فائرنگ کے واقعات میں  انسانی جانوں کے زیاں کی شدید مذمت  کی گئی ہے ۔

بلاول بھٹو نے کہا کراچی میں پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد دہشتگردوں سے برداشت نہ ہوا ۔ واقعے میں ملوث ملزمان کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔  حکومت سندھ صوبے میں امن و امان کے خلاف سازش کو آہنی ہاتھوں سے روکے۔

بلاول بھٹو کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کراچی میں امن کے لیئے دی گئی جانوں کی قربانیاں رائیگاں  جانے نہیں دیں گے۔

امیر جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن کی  بھی کراچی میں معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا حکومت علماءکرام کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔  ایک گہری سازش کے تحت علماء کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔حکومت حملہ آوروں کو فوری گرفتار کرے۔

چیف آرگنائزر پاکستان تحریک انصاف سیف اللہ نیازی نے بھی معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے ۔  سیف اللہ نیازی نے کہا ہے کہ ملک دشمن عناصر پاکستان میں انتشار چاہتے ہیں۔ سندھ حکومت واقعے میں ملوث عناصر کو فوری گرفتار کرے۔

کراچی میں ماضی میں بھی معروف دینی شخصیات کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ دہشت گردوں نے اپنی کارروائیوں کے لئے زیادہ تر یونیورسٹی روڈ،شاہراہ پاکستان اورشاہراہ فیصل کا چناؤ کیا ۔

دوہزار تیرہ شہرقائد کے لیے خونی سال رہا،جس میں جامعمہ بنوریہ کے صدر مفتی عبدالمجید دین پوری کو بھی شہید کیا گیا۔

دوہزارتیرہ میں ٹارگٹ کلنگ سمیت مختلف وجوہات کی بنا پرستائیس سوسے زائدافراد کی جان چلی گئی۔

شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی بیشتر وارداتیں چارمعروف شاہراہوں پر کی گئیں۔جن میں یونیورسٹی روڈ،شاہراہ پاکستان ،شاہراہ فیصل اور نواب صدیق علی خان روڈ شامل ہیں۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق یونیورسٹی روڈ پرپرانی سبزی منڈی سے کراچی یونیورسٹی کے درمیان2010 سے 2018کے دوران 37 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔

شاہراہ پاکستان پر تین ہٹی سے سہراب گوٹھ تک اسی عرصے میں ٹارگٹ کلنگ کے 19 واقعات ہوئے۔

نواب صدیق علی خان روڈ پر لسبیلہ چوک سے عباسی شہید موڑ کے درمیان 2010 سے 2018 کے دوران 32 افراد کو گھات لگا کر قتل کیا گیا۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ شہر کی ان تین اہم شاہراہوں پر متعدد بار واقعات پیش آنے کے باوجود ان کی روک تھام میں کوئی کامیابی نہیں ہوسکی۔دہشت گرد کھلے عام ان شاہراہوں پر دندناتے پھرتے ہیں  اور آرام سے واردات کر کے فرار بھی ہوجاتے ہیں۔

یاد رہے اس سے قبل 4مارچ کو بھی کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار اے ایس آئی رضوان جاں بحق ہو گیاتھا۔

یہ بھی پڑھیے:کراچی میں فائرنگ سے پولیس اہلکار جاں بحق

جاں بحق ہونے والا پولیس اہلکار رضوان اقبال مارکیٹ تھانے میں تعینات تھا اور ذاتی کام سے گیا ہوا تھا۔موٹرسائیکل سوار ملزمان اے ایس آئی رضوان کو نشانہ بنانے کے بعد باآسانی فرار ہو گئے تھے

ایس ایس پی شرقی کے مطابق مقتول پولیس اہلکار نے وردی پہن رکھی تھی اور وہ اپنے ذاتی کام سے گئے ہوئے تھے۔ جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم پستول کے دو خول ملے ہیں۔


متعلقہ خبریں