واشنگٹن: امریکا کے اسٹیٹ اور خزانے کے محکموں نے ایران کے 17 اداروں اور 14 شخصیات پر دفاع، جدت اور تحقیق کے شعبوں میں پابندیاں عائد کردی ہیں۔
سئینرامریکی عہدیداروں نے نئی پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آئی اے ای اے اور امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی طرف سے ایران کے خلاف ورزیوں میں ملوث نہ ہونے کی تصدیق کے باوجود ایس پی این ڈی اور دیگر ماتحت ادارے خفیہ طورپرمیزائل پروگرام کی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔
امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ایران کو جوہری توانائی کے حصول سے روکنے کے لیے ہماری ایران پرزیادہ سے زیادہ دباو بڑھانے کی مہم جاری ہے، نئی پابندیاں بھی اسی کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایران کو ڈبلیوایم ڈی کے حصول اورسرگرمیوں سے روکنے کے لیے مسلسل کام کریں گے۔
Our maximum pressure campaign on #Iran continues with today’s sanctions on targets involved in the regime’s nuclear program, including former nuclear weapons scientists. We’ll be relentless in denying Iran the ability to engage in WMD proliferation and all its outlaw activities.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) March 22, 2019
جنوری میں نیشنل انیٹلی جنس کے ڈائریکٹر نے تصدیق کی تھی کہ ایسی کوئی نشانیاں نہیں ہیں جو ظاہرکریں کہ امریکی انتظامیہ کے معاہدے سے الگ ہوجانے کے باوجود ایران نیوکلئیرکی تیاری کے لیے سرگرمیوں میں ملوث ہے اور 2015 کے معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
امریکی پابندیوں پرایران کا ردعمل
امریکی پابندیوں پر ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپراپناردعمل دیا اور لکھا کہ امریکا مشرق وسطی میں عدم استحکام کی سب سے بڑی بنیادی وجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا سوچنا خام خیالی ہوگی کہ مسلسل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، خودمختار قوموں کو ہراساں کرنے اور کلائنٹس کو نچوڑ لینے سے طاقت حاصل ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ایسی بے رحمی زوال پر آمادہ طاقت کی گھبراہٹ کا اظہار ہے۔
US is the single biggest source of instability in MidEast. It may be deluded enough to believe that persistently violating int’l law, bullying sovereign nations & milking its clients projects strength. It does not. Its recklessness just displays panic of an empire in decline.
— Javad Zarif (@JZarif) March 22, 2019
واضح رہے سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کے دورمیں ایران کے ساتھ چھ ممالک کا ایٹمی معاہدے پردستخط ہوئے تھے جس کے تحت ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام معطل کردیا تھا اور بدلے میں ایران پرعائد پابندیوں کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔
ڈونلڈٹرمپ شروع سے ہی اس معاہدے کے خلاف رہے اور انہوں نے گزشتہ سال مئی میں اس سے نکل جانے کا اعلان کردیا۔
اس معاہدے میں ایران، امریکہ، جرمنی، برطانیہ، روس اور چین شامل تھے جن کا مقصد ایران کو ایٹمی بم بنانے سے روکنا تھا۔
دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ آئی ایس آئی ایس انٹرنیٹ کا سب سے بہتر استعمال کرتی ہے اور یہ سب اس کا پروپیگنڈا ہوتا ہے، اب انہیں ہر سطح پربری طرح شکست دے دی گئی ہے۔
ان سے متعلق تعریف کے لیے کچھ نہیں ہے، وہ ہمیشہ شیطانی امید کو دکھانے کی کوشش کریں گے لیکن وہ اب ہارے ہوئے ہیں اور مشکل سے زندہ ہیں۔ اپنے خاندان اور اپنی زندگیاں تباہ کرنے سے پہلے اس بارے میں سوچو۔