عالم دین مفتی تقی عثمانی پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج

Mufti Taqi Usmani

پاکستانی لڑکیوں کی عالمی مقابلہ حسن میں شرکت مفتی تقی عثمانی کا شدید ردعمل


کراچی: ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

ہم نیوز کے مطابق مقدمہ نمبر 2019/176 سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جو چھ نامعلوم ملزمان کے خلاف ہے۔ درج مقدمہ میں انسداد دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

شہر قائد کے علاقے نیپا چورنگی سے متصل راشد منہاس شہید روڈ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں نے ضلع شرقی کے مختلف علاقوں میں کومبنگ آپریشن کیا۔

ہم نیوز نے ایس ایس پی ایسٹ غلام اظفر میہسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ آپریشن ڈالمیا، گلستان جوہر اور گلشن اقبال میں کیا گیا۔

ایس ایس پی ضلع شرقی کے مطابق کومبنگ آپریشن (گھر گھر تلاشی کا عمل) مشکوک اور مشتبہ افراد کی علاقے میں موجودگی کی اطلاع پر کیا گیا۔

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ آپریشن کی براہ راست نگرانی ایس پی گلشن طاہر نورانی نے کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران علاقے کے تمام داخلی و خارجی راستوں کو سیل کردیا گیا تھا۔

آپریشن کے دوران علاقہ پولیس کے علاوہ ریپڈ ریسپانس فورس کی بھاری نفری بھی علاقے میں موجود تھی۔

ایس ایس پی شرقی کے مطابق کومبنگ آپریشن کے دوران مشکوک و مشتبہ افراد کے کوائف کی جانچ پڑتال اور بائیو میٹرک تصدیق بھی کی جائے گی۔

معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر گزشتہ روز شہر قائد میں قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے تھے لیکن ہونے والی فائرنگ سے دو افراد جاں بحق اور ایک زخمی ہو گیا تھا۔ جاں بحق ہونے والوں میں ان کے گارڈ اورڈرائیور بھی شامل تھے۔

پولیس کے مطابق دو موٹرسائیکلوں پر سوار نامعلوم افراد نے یونیورسٹی روڈ پر نیپا چورنگی کے قریب ٹویوٹا کرولا کار پر فائرنگ کی تھی جس میں ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی سمیت دیگر افراد تھے۔

 

مفتی تقی عثمانی نے قاتلانہ حملے کے بعد  پولیس کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان پر چاروں اطراف سے فائرنگ کی گئی مگر خدا نے انہیں محفوظ رکھا ہے۔

قاتلانہ حملے کے بعد آئی جی سندھ کلیم امام نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا تھا کہ مفتی تقی عثمانی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی سیکیورٹی موجود تھی اور پولیس اہلکار نے مفتی تقی عثمانی کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان دے دی ہے۔

آئی جی سندھ کلیم امام نے ایک سوال پر تصدیق کی تھی کہ گزشتہ چھ ماہ سے تھریٹس موجود تھے۔


متعلقہ خبریں