غیر ملکی قرضوں کی ترسیل میں دو تہائی کمی

فائل فوٹو


اسلام آباد: مالی سال کے ابتدائی آٹھ ماہ میں غیرملکی قرضوں کی ترسیل میں تقریباً دو تہائی کمی کا انکشاف ہوا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق غیرملکی قرضوں میں یہ کمی  2.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔اس کمی سے تاثر ملتا ہے کہ حکومت مختلف منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اسی طرح بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج میں تاخیر کی وجہ سے کئی پالیسی لونز رکے ہوئے ہیں جبکہ اس کی وجہ سے حکومت نے یورو بونڈز کے اجراء کو بھی روک رکھا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے فروری کے درمیان جاری ہونے والے 2.75 ارب ڈالر کے قرضوں میں سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے ملنے والے ہنگامی سات ارب ڈالر کے قرضے شامل نہیں ہیں۔

وزارت خزانہ کے ترجمان ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ سعودی عرب سے تیل کی مد میں تین ارب ڈالر کی ریلیف اپریل سے آپریشنل ہوجائے گی جبکہ متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر کا بقیہ قرضہ آئندہ ہفتے مل جائے گا۔

مزید پڑھیں: چین سے پاکستان کو دو ارب دس کروڑ ڈالر 25 مارچ کو ملیں گے،وزارت خزانہ

پاکستان توقع کررہا ہے کہ اسے چین سے 2.1 ارب ڈالر کا کمرشل لون پیر تک مل جائے گا۔ تاہم جولائی سے فروری کے درمیان ملنے والے قرضے وزارت خزانہ کے تخمینے کے مقابلے میں محض 31 فیصد ہی تھے۔ قرضوں کی ترسیل توقعات کے مطابق نہ ہونے سے پاکستان کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر دباؤ کا شکار ہیں۔

چین نے گزشتہ سال جولائی میں پاکستان کو دو ارب ڈالر قرضہ دیا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے تین ارب ڈالر جبکہ متحدہ عرب امارات نے دو ارب ڈالر قرضہ دیا۔

جولائی سے فروری کے درمیان انٹرنیشنل کریڈیٹرز کی جانب سے قرضوں کی ترسیل 4.6 ارب ڈالر تھی۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ مالی سال اسی دورانیے میں پاکستان نے 7.3 ارب ڈالر کے قرضے حاصل کیے تھے۔ اس کے علاوہ 2.5 ارب ڈالر کے بونڈز اور 1.8 ارب ڈالر کے کمرشل لونز بھی حاصل کیے گئے۔

وزیر خزانہ اسد عمر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے پپلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پپرا) قوانین میں تبدیلی کی۔ اس کے باوجود وہ روایتی بیوروکریٹک مشکلات کو دور نہیں کرسکے ہیں۔

حکومت کوشش کررہی ہے کہ ایسا نظام تشکیل دیا جائے کہ غیر ملکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں کو فاسٹ ٹریک کیا جاسکے تاہم ابھی تک سسٹم میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔

مرکزی بینک کے ذرائع کے مطابق پاکستان کی بڑھتی ہوئی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے غیر ملکی قرضے کافی نہیں اور ان کی رکنے سے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان نے ایشین ڈیویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کو 500 ملین ڈالر کے قرضے کو منظور کرنے کی درخواست کی تاہم اے ڈی بی اس درخواست کو آئی ایم ایف کی جانب سے گرین سگنل ملنے سے قبل نہیں سنے گا۔

پاکستان نے اے ڈی بی سے فروری تک تقریباً 350 ملین ڈالر قرض حاصل کیا تھا جو کہ ملکی تخمینے سے کافی کم تھا۔ اسی طرح عالمی بینک نے صرف 162 ملین ڈالر قرض ادا کیا جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 50 فیصد کم تھا۔

اسی طرح اسلامک ڈویلپمنٹ بینک (آئی ڈی بی) نے گزشتہ ماہ 91.4 ملین ڈالر اضافی رقم ادا کی۔ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران بینک 394 ملین ڈالر ادا کرچکا ہے۔ آئی ڈی بی کی ادائیگی میں بھی 57 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

آئی ڈی بی نے یہ کمرشل لون سعودی عرب سے تیل کی خریداری کے سلسلے میں دیے ہیں۔ رواں مالی سال میں پاکستان کو تیل کی مد میں 575 ملین ڈالر کے ریلیف کا وعدہ کیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں