عورت کسی کی ملکیت نہیں بلکہ اپنی انفرادی شناخت رکھتی ہے، فرزانہ باری


اسلام آباد: معروف سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ عورت کسی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی انفرادی شناخت ہے۔

ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ کے میزبان عامر ضیاء سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا جسم میری مرضی کا مطلب ہے کہ میں کسی کی ملکیت نہیں ہوں، میری ایک انفرادی شناخت ہے۔مجھے کتنے بچے پیدا کرنے ہیں، یہ فیصلہ نہ میرا شوہر کرے اور نہ ہی ساس۔

عورت مارچ پر ہونے والے شور شرابے پر ان کا کہنا تھا کہ عورت مارچ کے پوسٹرز پر اعتراضات کے پیچھے پدر سری سماج کی سوچ کام کر رہی ہے۔ یہ اس ذہنیت کا مسئلہ ہے جو عورت کے مساوی حقوق کی بات سے گھبرا جاتی ہے۔

ڈاکٹر فرزانہ باری نے وضاحت کی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کا دہرا استحصال ہوتا ہے۔ اسے گھر کا کام بھی کرنا پڑتا ہے اور ملازمت بھی کرنی پڑتی ہے۔اس لیے ہمارے معاشرے کی عورت کے مطالبات مغرب سے مختلف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مغرب میں بھی عورت دوسرے درجے کی ملازمتیں کرتی ہے، اسی طرح 21 فیصد سے کم خواتین سیاست میں متحرک ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے مرد پر بھی بہت دباؤ ہے، یہی وجہ ہے کہ عورتوں سے زیادہ مرد خودکشی کر رہے ہیں۔ اگر خواتین بھی کام کے لیے باہر نکلے گی تو مرد پر دباؤ کم ہو گا۔

پروگرام میں شریک معروف تجزیہ کار ہما بقائی نے کہا کہ پوسٹرز والی خواتین کو موت اور ریپ کی دھمکیاں دی گئیں۔ عورت مارچ کے دن جو باتیں تخلیے میں کی جاتی تھیں وہ پبلک میں پہلی بار کی گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان مسائل سے آنکھ نہیں چرائی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ تنگ نظر ذہنوں نے ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسے پوسٹر کی جو تشریح کی ہے ہم اسے تسلیم نہیں کرتے، ہم اپنی تشریح خود پیش کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ہما بقائی نے کہا کہ ہمارے ملک میں قوانین کا انبار لگا ہوا ہے لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ ریاست اگر کسی بات کو غلط سمجھتی ہے اور معاشرہ درست تو قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔ اگر ریاست غیرت کے نام پر قتل کو جرم سمجھے اور معاشرہ درست سمجھے تو ملزموں کو سزا ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشرہ مرد کو نہیں بتاتا کہ کیسے اٹھنا بیٹھنا ہے لیکن عورت کو ہر وقت یہی سمجھایا جاتا ہے۔ پدرسری معاشرے میں خواتین دکھائی نہیں دیتیں اور سنائی نہیں دیتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین مارچ کے ذریعے عورت نظر بھی آئی ہے اور وہ اپنا حق بھی مان رہی ہے۔ اس لیے اسقدر ردعمل سامنے آیا ہوا ہے۔

معروف سماجی کارکن اور کئی کتابوں کی مصنف ڈاکٹر فوزیہ سعید کے مطابق مین سٹریم میڈیا نے بھی سوشل میڈیا کی پیروی میں خواتین کے پوسٹرز پر اعتراض کیا۔ اس موقع پر ریاست نے بھی کھل کر خواتین کے ساتھ نہیں دیا۔

انہوں نے بتایا کہ جنسی ہراسگی کا مسئلہ ہم نے اٹھایا تھا تو مرد حیرت سے ہمیں دیکھتے تھے کہ یہ کیسی عورتیں ہیں اور کیسا مسئلہ انہوں نے اٹھایا ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ سعید نے کہا کہ خواتین مارچ کے بعد عورتوں کے بارے میں گھٹیا زبان استعمال کی گئی جو بہت افسوسناک بات ہے۔


متعلقہ خبریں