سپریم کورٹ نے نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی


اسلام آباد:سپریم کورٹ نے نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے نواز شریف کو 6 ہفتوں کے لیے علاج کرانے کی اجازت دے دی۔  سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پرسماعت ہوئی۔  سپریم کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد آج ہی فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت  سے نوازشریف کے علاج کےلیے 8 ہفتوں کی مہلت  کی استدعا کی تھی ۔

عدالتی فیصلے کے مطابق نوازشریف کے بیرون ملک جانے پر پابندی ہوگی۔  نواز شریف کی ضمانت 50 لاکھ  روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کی گئی۔نوازشریف کو 6 ہفتوں کے بعد خود گرفتاری دینا ہوگی.

نواز شریف اپنی درخواست ضمانت کے لیے ہائی کورٹ سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ  نے کیس کی سماعت کی ۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ڈاکٹر لارنس ماضی میں نوازشریف کے معالج رہے ہیں؟ ڈاکٹرلارنس کے خط کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ جب کہ یہ  ایک شخص کا دوسرے شخص کو خط ہے،  کیا یہ ثبوت ہے؟

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ ڈاکٹرلارنس کا خط عدالت کے نام ہے جب کہ خط میں صرف میڈیکل ہسٹری ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم نے نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لیا ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ 26 جنوری کو رپورٹ آئی تھی، جس میں نوازشریف کی طبعیت خراب ظاہر کی گئی اور نوازشریف کی طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی درخواست دائر کی گئی تھی۔

سابق وزیراعظم کی جانب سے طبی بنیادوں پر ضمانت کے مزید دستاویزات بھی جمع کرادیے گئے ہیں۔

نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے جمع کرایا گیا خط ڈاکٹر لارنس نے نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے نام لکھا ہے۔

ڈاکٹر لارنس کے خط میں نوازشریف کی 2003 سے 2019 کی میڈیکل ہسٹری شامل ہے۔

’نوازشریف دل،گردے کے امراض اور ذہنی دبائو کا شکارہیں، خواجہ حارث‘

خواجہ حارث نے کہا جنوری 2019 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ نوازشریف کواسپتال منتقل کیا جائے۔ میڈیکل رپورٹ میں نوازشریف کو اسپتال منتقل کرنے کی تجویز دی گئی،نوازشریف دل،گردے کے امراض اور ذہنی دبائو کا شکارہیں۔
نوازشریف کو انجیو گرافی کی ضرورت ہے، جیل میں معائنے کے بعد میڈیکل بورڈ نےبھی نوازشریف کو اسپتال منتقل کرنے کی تجویز دی۔ چوبیس گھنٹے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے،
معالج  کے مشورے کے بعد انجیوگرافی کی تجویز دی گئی،نوازشریف کی طبعیت مسلسل بگڑ رہی ہے،آخری میڈیکل رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ نوازشریف کو انجیو گرافی کی ضرورت ہے۔

نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ  نوازشریف کا بلڈ پریشر بڑھ رہا ہے۔ ادویات کے بعد نوازشریف بلڈ پریشر 90/160 ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ہائپر ٹینشن اورشوگر پر قابو پالیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کیا ہم صرف ڈاکٹرلارنس کی بات پر یقین کرلیں ؟ ڈاکٹرلارنس نے کہا کہ گردوں کا مرض اسٹیج تھری پر ہے۔ عدالت کے پاس ریکارڈ میں کوئی چیز نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا ہمارے پاس کیا ثبوت ہے کہ بیماری اسٹیج تھری پر ہے؟عدالت نہیں جانتی کہ ڈاکٹر عدنان کون ہے، آپ کا کیس ہے کہ نوازشریف کی صحت بگڑ رہی ہے۔ڈاکٹرلارنس کا خط اصلی ہے اس کی کیا تصدیق ہے؟اگر گردوں کا مرض اسٹیج تھری پر ہے تو ریکارڈ دکھائیں۔
خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف 15 سال سے گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا نوازشریف کو کب گرفتار کیا گیا؟
خواجہ حارث نے بتایا کہ نواز شریف کی گرفتاری 24 دسمبر کو ہوئی،نوازشریف کی شوگر بڑھنے سے دل کا مسئلہ سنجیدہ ہوتا جارہا ہے۔ نوازشریف کی ایک شریان میں 90،دوسری میں 93 فیصد بندش ہے۔

’فوجداری مقدمات میں خط پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس پاکستان‘

چیف جسٹس نے پوچھا کیا میڈیکل بورڈ کو کوئی دستاویزات فراہم کی گئیں؟میڈیکل بورڈ کی سفارشات پرفوکس کریں نہ کہ خط پر، فوجداری مقدمات میں خط پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اٹھارہ فروری کی رپورٹ میں بھی کرونک بیماریوں کا ذکر ہے۔ہم مریض کی موجودہ حالت پر توجہ دے رہے ہیں،دلائل سے پتہ چل رہا ہے کہ نوازشریف کی میڈیکل ہسٹری ہے ۔
خواجہ حارث نے کہا شریانوں میں خون کی بندش کی وجہ سے مریض کودو بار اسپتال منتقل کیاگیا۔ اینجیو گرافی سے مریض کے گردے متاثر ہوسکتے ہیں۔ نواز شریف کی طبی صورتحال کی سنگینی کو مد نظر رکھا جائے، نواز شریف کی صحت روز بہ روز خراب ہورہی ہے۔ نواز شریف کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے۔

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔ ان کا عارضہ قلب تیسرے درجے میں داخل ہوچکا ہے،تمام میڈیکل بورڈ کی سفارشات ہیں کہ نواز شریف کا اسپتال میں علاج ہےان سفارشات کی روشنی میں نواز شریف کا علاج ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا آپ نے نواز کی میڈیکل ہسٹری سے متعلق ڈاکٹر لارنس کا خط پیش کیا۔کیا نواز شریف کی طبی صورتحال سے متعلق صرف یہ ہی ایک ثبوت ہے۔آپ ہمیں نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری بتا رہے اور صرف ایک ثبوت پیش کیاآپ کے موکل کی خرابی صحت کی بنیاد پر ضمانت کا معاملہ اور آپ نے ایک خط پیش کیا

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں نہیں معلوم ڈاکٹر لارنس کون ہے اور ڈاکٹر عدنان کون ہے،نواز شریف پچھلے 15 سالوں سے ان بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

ہم دیکھنا چاہتے ہیں کیا ان بیماریوں کی بنیاد پر ضمانت ہوسکتی ہے۔یہ بیماریاں بہت پرانی ہیں،آپ نے میرٹ کی بنیاد پر دائر پٹیشن واپس لے لی تھی ۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا  کیونکہ نواز شریف کی صحت کا معاملہ بعد میں سامنے آیا،نوازشریف کی صحت کا جائزہ لینے کیلئے پانچ میڈیکل بورڈ بنے،پانچوں میڈیکل بورڈز نے نوازشریف کو اسپتال داخل کرانے کی سفارش کی ۔ میڈیکل بورڈز نے سفارش کی کہ نوازشریف کو علاج کی ضرورت ہے۔30 جنوری کو پی آئی سی بورڈ نے بڑے میڈیکل بورڈ بنانے کی تجویز دی ، میڈیکل بورڈ نے ایک سےزائد بیماریوں کےعلاج کی سہولت والےاسپتال میں داخلےکاکہا۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری ہیں،  کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔

سماعت میں وقفے کے بعد اپنے دلائل میں خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کی اینجو گرافی دیگر مریضوں کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان کے اسپتالوں میں علاج ممکن ہے؟کیا پاکستان کے اسپتالوں میں مطلوبہ سہولتیں اورتجربہ کارڈاکٹرز ہیں ؟
نوازشریف کو علاج کرانا ہے تو کسی بھی اسپتال کو حکم دے سکتے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا علاج کےلیے نوازشریف کا ذہنی دبائو سے نکلنا ضروری ہے
چیف جسٹس نے کہا ذہنی دبائو 2 ہفتوں میں ختم ہوجاتا ہے۔ نوازشریف کی سزا کےخلاف اپیل اسلام آباد ہائی کور میں مقرر ہوجائے گی اپیل مقرر ہوچکی ہے،سماعت قریب ہے،اب ضمانت کی درخواست کیوں سنیں؟
خواجہ حارث نے کہا اپیل پر جلد بازی میں سماعت نہیں ہونی چاہیے، ممکن ہے کہ ہائی کورٹ تمام ریفرنسز میں ایک ساتھ اپیل لے۔

چیف جسٹس نے کہا سوال یہ ہے کہ نوازشریف کی جان کو خطرات ہیں یا نہیں،کیا یہ کہہ دیں کہ ہائی کورٹ نے اپیل بلاوجہ مقرر کردی ہے؟ اپیل پر فیصلے کے بعد ضمانت ہوتی ہے۔اپیل مقرر ہوجائے تو ضمانت کی درخواست نہیں بنتی۔ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کو ہدایات دے سکتے ہیں کہ اپیل پرفیصلہ جلد کرے۔

میڈیکل رپورٹ میں کہیں نہیں کہا گیا کہ نوازشریف کی حالت تشویشناک ہے۔میڈیکل رپورٹ میں نوازشریف کی جان کو کسی خطرے کی نشاندہی نہیں کی گئی۔میڈیکل رپورٹ میں ادویات جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا نوازشریف 2003 سے عارضہ قلب میں مبتلا ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا قانون کے مطابق علاج ہورہا ہو تو ضمانت نہیں ملتی۔

خواجہ حارث نے کہا 2011 میں نوازشریف وینٹی لیٹر پر تھے۔

چیف جسٹس نے کہا اوپن ہارٹ سرجری کے بعد مریض 20 سال کے نوجوان جیسا ہوجاتا ہے۔

’میڈیکل ہسٹری ہونا ضمانت کےلیے موزوں وجہ نہیں ، چیف جسٹس‘

رپورٹ میں نوازشریف کی ماضی کی میڈیکل ہسٹری کا ذکرہےلوگوں کی میڈیکل ہسٹری ہوتی ہے اور وہ زندہ رہتے ہیں۔ میڈیکل ہسٹری ہونا ضمانت کےلیے موزوں وجہ نہیں ہے, قائل کریں کہ نوازشریف کا علاج جیل میں ممکن نہیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے پوچھااگر نوازشریف کو ایک ہفتے کی ضمانت دی جائے تو ٹھیک ہے؟
خواجہ حارث نے کہا مکمل طور پر رہائی ملنے تک نوازشریف ذہنی دبائو سے نہیں نکل سکتے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا آج کل تو جن کا ٹرائل نہیں ہورہا وہ بھی ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا نوازشریف علاج کی پیشکش کو انکار کررے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ نوازشریف علاج کےلیے راضی ہوجائیں۔نوازشریف علاج کےبعد مکمل صحت یاب نہیں ہوسکتے،صرف بیماری کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے،پوری رپورٹ میں نہیں کہا گیا کہ نوازشریف کی زندگی کو فوری خطرات ہیں،تمام میڈیکل رپورٹس کی سفارشات کے باوجود آپ کیوں اعتراض کررہے ہیں کہ علاج نہ ہو۔نوازشریف نے جلاوطنی بھی کاٹی،جلاوطنی بھی تو ذہنی دبائو کا باعث بنتی ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا ای اسی ایل سے نام نکالنا اور ڈالنا حکومت کا کام ہے۔

خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیے ۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا نوازشریف کی مرکزی اپیلیں حتمی دلائل کےلیے مقرر ہوچکی ہیں۔
نیب کی جانب سے نوازشریف کی سزا میں اضافہ اوربریت کےخلاف اپیل  بھی کی گئی ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی نوازشریف کی میڈیکل ہسٹری سامنے نہیں آئی۔
18 فروری کے بعد سے آج تک نوازشریف مسلسل زیرنگرانی ہیں۔ ڈاکٹرز نوازشریف کا مسلسل معائنہ کررہے ہیں۔

چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹرسے استفسار کیا  نیب کے ملزمان بیمار کیوں ہوجاتے ہیں؟نیب ریکوری کےلیے کوئی اچھا اسپتال بنائے۔کیا ملزمان کو زیادہ دبائو میں رکھتے ہیں؟
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا اٹھارہ فروری سے آج تک آنے والی رپورٹس بتاتی ہیں نوازشریف کی حالت نارمل ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کیا دل کے مریض کےلیے انجیو گرافی لازمی ہے ؟

نیب پراسیکیوٹر نے کہا اگر میڈیکل بورڈ کی تجویز دی جائے تو کارروائی کی جاتی ہے،میڈیکل بورڈ نے ضرورت کے تحت انجیو گرافی کی تجویز دی ہے۔پاکستان میں انجیو گرافی باآسانی ہوجاتی ہے،پاکستان میں انجیو گرافی کے جدید آلات موجود ہیں۔

’کسی رپورٹ میں نہیں کہا گیا کہ نوازشریف نے علاج سے انکار کیا، جسٹس سجاد علی شاہ‘

جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کسی رپورٹ میں نہیں کہا گیا کہ نوازشریف نے علاج سے انکار کیا۔

نوازشریف کا پاسپورٹ  جمع کرا سکتے ہیں نام پہلے ہی ای سی ایل میں ہے ۔
چیف جسٹس نے کہاآپ صرف نوازشریف کو ذہنی دباؤ سے آزاد کرانا چاہتے ہیں،ہر قیدی ذہنی دباؤ کا خاتمہ چاہتا ہے،اگرضمانت دی جاتی ہے توذہنی دباؤ ختم کرنے کیلئے کتنا وقت چاہیے؟چیف جسٹس
خواجہ حارث نے کہا ذہنی دباؤ ختم ہونے کے لئے کئی ہفتے چاہیے ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا پاکستان میں بہترین ڈاکٹرز اور مشینری اسپتالوں میں موجود ہے۔ اپنے ڈاکٹر سے دوہفتوں تک علاج کے بعد نوازشریف واپس جیل چلے جائیں تو کیا ہوگا؟ آخر نوازشریف ایک سزا یافتہ شخص ہے۔ جو سزا یافتہ نہ ہو ذہنی دباؤ تو اسے بھی ہے، اکیسویں صدی کا اصل مسئلہ ہی ذہنی دباؤ ہے۔

خواجہ حارث نے کہا اپنی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج ہر مریض کا حق ہے۔ یہ نوازشریف کی آخری اینجیو گرافی بھی ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کسی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا کہ نوازشریف کی بیماری انکی زندگی کیلئے خطرہ ہے۔
خواجہ حارث نے کہا سب ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ جیل کی بجائے نوازشریف کا اسپتال میں علاج ہو۔
چیف جسٹس نے کہا قانون کے تحت جیل سپرنٹنڈنٹ نوازشریف کو اسپتال منتقل کر سکتا ہے۔ ان رپورٹس کے بعد آپ اسپتال منتقل ہونے پر مزاحمت کیوں کر رہے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا جلاوطنی کے دوران نوازشریف کا بیرون ملک علاج ہوتا رہا۔
چیف جسٹس نے کہا جلاوطنی کا بھی ذہن پر دباؤ ہوتا ہے۔ نواز شریف کے موجودہ رپورٹ میں کوئی خطرے کی بات نہیں ۔ پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق نواز شریف 2003 سے عارضہ قلب میں مبتلا ہیں ۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ خرابی صحت کے بنیاد پر زندگی کو خطرہ لاحق تو نہیں؟

سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ اگر ملزم کی صحت خراب ہو اور جیل میں سہولیت نہ ہو تو ضمانت دی جا سکتی ہے۔ ہمیں بتائے کہ کس طرح نواز شریف کے زندگی کو جیل میں خطرہ ہے ؟

خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے ، انجیوگرافی ہونی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا سنا ہے کہ اوپن ہارٹ سرجری سے مریض 20 سال جوان ہو جاتا ہے؟َ آپ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو انجیو گارفی کے ساتھ نگہداشت چا ہیے ،

خواجہ حارث نے کہا دل کو خون پہنچانے والی شریان 43 فیصد بند ہے۔ میرے موکل کو ضمانت کی ضرورت ہے ۔جیل میں قید کی وجہ سے امراض شدت اختیار کر چکے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا ہائی کورٹ 2 ہفتوں میں فیصلہ کر دے گی اگر دبائو 2 ہفتوں میں ختم ہو سکتا ہے ۔2 ہفتوں  میں ہائی کورٹ کو فیصلہ کر سکتی ہے ۔

خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کی صحت سنگین ہے، ضمانت ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا ہم ہائی کورٹ کو حکم دیتے ہیں کہ کیس کو سنے۔

خواجہ حارث نے کہا ہائی کورٹ میں جلد بازی کی وجہ سے مقدمہ متاثر کو سکتا ہے۔

آپ چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو ذہنی دباو سے چھٹکارہ ملے کہ علاج ہو سکے ؟

اگر نواز شریف ذہنی دباو سے باہر آئے تو پاکستان میں علاج ہو سکتا ہے۔ اگر نہیں تو بیرون ملک کسے کون سا ڈاکٹر علاج کر سکتا ہے۔

اگر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مرض شدید  ہے تو ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں ؟

خواجہ حارث نے کہا اگر ایسا ہے تو ضمانت دی جائے  کہ دبائوختم ہو جا ئے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کا کیس موجود ہے۔ڈاکٹر عاصم حسین عدالت کی اجازت سے بیرون ملک علاج کے لیے گئے ۔

چیف جسٹس نے کہا بیماری ضمانت کی بہترین بنیاد ہے اگر غلط استعمال نہ کی جائے۔

آپ کے میڈیکل رپوٹ میں اعتماد کی کمی ہے، کوئی کچھ کہتا ہے توکوئی  کچھ اور۔ آپ کہتے ہیں کہ ذہنی دبائو ختم کرنے کے لئے ضمانت دی جائے ۔ عدالت نے نواز شریف کی درخواست ضمانت منظورکرتے ہوئے 6ہفتوں کے لیے نواز شریف کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ میں گزشتہ سماعت پر سابق وزیراعظم نوازشریف کی پانچ میڈیکل رپورٹس عدالت میں پیش کی گئی تھیں۔

تین رکنی بینچ نے سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے نیب کو نوٹس جاری کیا تھا۔

خواجہ حارث نے عدالت میں کہا تھا کہ نوازشریف کی حالت بگڑ رہی ہے، ان کے معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ پنجاب حکومت کے احکامات پر بنایا گیا۔

واضح رہے کہ 25 فروری کو طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں یکم مارچ کو چیلنج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے:سپریم کورٹ:نواز شریف کی درخواست ضمانت پر نیب کو نوٹس جاری

سابق وزیراعظم نوازشریف کو احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں 24 دسمبر کو سات سال قید کی سزا، ایک ارب 50 کروڑ روپے کا جرمانہ اور جائیداد ضبطی کی سزا سنائی تھی۔

عدالت سے فیصلہ آنے کے بعد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر چھوٹا سا پیغام جاری کیاہے ۔ مریم نواز نے ٹوئٹر پر لکھا ’’اللہ کریم‘‘ اور ساتھ دل بھی بنایا ۔

کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیراعظم سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو بھی ملاقات کرکے سندھ میں علاج کی پیشکش کرچکے ہیں، اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان نے بھی پنجاب حکومت کو نوازشریف کو صحت کی ہرسہولت یقینی بنانے کی ہدایت کررکھی ہے۔

سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نوازشریف کی صحت سے متعلق انتہائی تشویش میں مبتلا ہیں جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پر کرتی رہی ہیں، اسی سلسلے میں انہوں نے گزشتہ دنوں جیل میں ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر جیل کے باہر دھرنے کی بھی دھمکی دی تھی۔

ادھر سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ نوازشریف کے چاہنے والوں اور سپورٹرز کو چاہیے کہ وہ اللہ سے رجوع کریں، قوم ان کی رہائی کے لئے دعا کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ دل سے نکلنے والی دعا کی طاقت کم نہیں ہوتی جو اللہ رب العزت کے حضور ضرور پہنچتی ہے، آج رات دعا کے ذریعے جو ہو سکتا ہے وہ کرنا چاہیے۔

ن لیگی رہنما نے کہا کہ نوازشریف کے چاہنے والے اپنے والدین سے دعا کروائیں، اللہ پتہ نہیں کس کی دعا قبول کر لے۔

مریم نواز نے مزید کہا کہ اللہ رب العزت آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے، جزاک اللہ۔

انہوں  نے کہا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ جب نوازشریف کو کوٹ لکھپت جیل لےجایاگیا تب انہیں وہاں دیکھنے گئی، میں نے ان سے کہا کہ آپ اڈیالہ جیل کے بجائے کوٹ لکھپت جیل میں بہتر محسوس کررہے ہیں؟

مریم نواز کے مطابق نواز شریف نے کہا ’جی ہاں‘ اس مشکل وقت میں تمہیں پریشان نہیں دیکھ سکتا، مشکل وقت خود پر تو برداشت کر سکتا ہوں لیکن بیٹی تمہیں پریشان نہیں دیکھ سکتا۔

نواز شریف کی ضمانت کے عدالتی فیصلے کے فوری بعد شہباز شریف کوٹ لکھپت جیل پہنچے جہاں مسلم لیگ نون کے کارکنان کی بڑی تعداد نواز شریف کے استقبال کے لیے موجود تھی جب کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں عدالتی فیصلہ کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔

پنجاب اسمبلی میں نواز شریف کی ضمانت پر اظہار تشکر کی قرارداد مسلم لیگ نون کی رہنما عظمیٰ زاہد بخاری کی جانب سے جمع کرائی گئی۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود عدالت کی جانب سے نواز شریف کو علاج کے لیے ریلیف دیا گیا ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت کا جھوٹ عوام کے سامنے آ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے بھی اس بات کو قبول کیا کہ ڈاکٹرز نواز شریف کا درست علاج نہیں کر پا رہے تھے۔ حکومت کے طرف سے تاثر دیا جا رہا تھا کہ نواز شریف علاج نہیں کرانا چاہتے  یہ تاثر جھوٹ پر مبنی تھا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہماری موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ ملک کی معیشت کی فکر کریں اور عوام کو ریلیف دیں۔

سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دونوں فیصلے مسلم لیگ نون کی بڑی کامیابی ہے اور فیصلوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف علاج کرانا چاہتے تھے لیکن حکومت نواز شریف کا علاج کرانے میں سنجیدہ نہیں تھی۔

سینئر تجزیہ کار ندیم ملک نے کہا کہ مسلم لیگ نون کے دونوں رہنماؤں کو ریلیف ملنا پارٹی کی بڑی کامیابی ہے۔ اس سے قبل یہ خبریں آ رہی تھیں کہ نواز شریف علاج کرانا ہی نہیں چاہتے جو آج غلط ثابت ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کے عدالتی فیصلوں کے بعد سیاست کا نیا رخ متعین ہو جائے گا۔ عدالتی فیصلے ہمیشہ میریٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ نیب شہباز شریف کے خلاف مقدمات میں کچھ بھی ثابت نہیں کر سکی۔

قانونی ماہر فیصل چوہدری نے ہم نیوز ڈاٹ پی کے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی سزا چھ ہفتے کے لیے معطل ہوئی ہے جس کے بعد وہ دوبارہ جیل میں اپنی سزا پوری کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمر چیمہ نے کہا کہ ہم عدلیہ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، پاکستان کے اندر کہیں سے بھی علاج کرانے کی سہولت تو حکومت نے پہلے سے دے رکھی تھی تاہم نواز شریف لندن سے علاج کرانے پر بضد تھے۔ نواز شریف کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں۔

پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا سپریم کورٹ کافیصلہ اچھااورخوش آئندہے۔نوازشریف کی فیملی ان کےعلاج کےلیےکوشاں تھی۔نوازشریف کو حکومت نے آفر کی تھی جہاں علاج کرانا چاہیں تیار ہیں۔عدالتوں سےدونوں فیصلوں میں زیادہ ریلیف نہیں ملا۔دونوں فیصلوں سے تلخی میں کمی آئےگی۔فیصلوں کے بعد حکومت کی جانب سے تلخی میں اضافہ ہوگا۔

سپریم کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا

سپریم کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ فیصلہ چار صفحات پرمشتمل ہے۔

فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے نوازشریف کے بیرون ملک جانے پرپابندی عائد کردی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چھ ہفتے بعد ضمانت ازخودم منسوخ ہوجائے گی اور نوازشریف نےخود کو قانون کے حوالے نہ کیا توگرفتار کر لیا جائے گا۔

فیصلے میں بتایا گیا کہ نوازشریف پاکستان میں کہیں سےبھی علاج کراسکتےہیں، علاج کی وجہ سے مختصرمدت کے لیےضمانت کی استدعا مناسب ہے۔


متعلقہ خبریں